• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

غصے کی حالت میں طلاق کی ایک صورت

استفتاء

میں دوبئی میں رہتا ہوں، میری طبیعت غصے کی بہت تیز ہے۔ کچھ دن پہلے میں پاکستان آیا تھا اس دوران اپنی ساس کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے شدید غصہ اور اشتعال کی وجہ سے اپنے حواس کھو بیٹھا اور ان پر قابو نہ ہونے کی وجہ سے میری زبان، میرے دماغی کنڑول میں نہ رہی اور حواس میں نہ ہونے کی وجہ سے اچانک لا شعوری طور پر میری زبان نے طلاق کے الفاظ ادا کر دیے جس کا میں دماغی طور پر ارادہ نہیں رکھتا تھا اور شدت غصہ اور لا شعوری طور پر یہ کہہ دیا کہ میں ان کی بیٹی کو طلاق دیتا ہوں، جس کا احساس مجھے بعد میں ہوا کیونکہ میری زبان نے جو کچھ بولا مجھے اس کا اندازہ اور کنٹرول نہ رہا۔ شدت غصہ کی وجہ سے میرا جسم بھی کانپ اٹھا۔ میری اور میری بیگم کی دو طلاق پہلے ہو چکے ہے۔ اس کے الفاظ یہ تھے ’’میں تمہیں طلاق دیتا ہوں‘‘۔

لہذا میں آپ سے اس سلسلے میں رہنمائی چاہتا ہوں کہ آیا کہ اس حالت میں طلاق ہوتی ہے جو اوپر بیان کی۔ یہ بات میں اللہ کو حاضر جان کر بیان کر رہا ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

سوال میں غصے کی جس حالت کا ذکر کیا گیا ہے اس میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔

توجیہ: غصہ کی جو حالت سوال میں ذکر کی گئی ہے اس میں نہ تو لا يعلم ما يقول ولا يريده کی کیفیت ہے بلکہ  يعلم ما يقول ولا يريده کی کیفیت ہے جس میں کم از کم قضاءً طلاق واقع ہو جاتی ہے کما سيأتي من إمداد الفتاوى، اور نہ ہی غصہ کی مذکورہ حالت میں خلافِ عادت اقوال (یعنی اختلال الجد بالہزل) و  افعال (یعنی توڑ پھوڑ وغیرہ) کا صدور ہے۔

امداد الفتاویٰ (2/407) میں ہے:

’ایک یہ کہ علم کا اثبات ہو اور ارادہ کی نفی ہو ۔۔۔۔ کہ اس شخص کا غلبۂ غضب میں یہ حال ہوا کہ بے ارادہ منہ سے واہی تباہی نکلتا تھا لیکن شعور و علم تھا جیسے مخطی کا حال ہوا ہے کہ کہتا ہے بے ارادہ مگر علم ہوتا ہے اس صورت میں واقعی مقتضااولیٰ کا یہی معلوم ہوتا ہے کہ واقع نہ ہو جیسا کہ مخطی میں فیما بینہ و بین اللہ تعالیٰ نہیں واقع ہوتی ۔۔۔ قلت نعم لا تصدقه المرأة كما فيه أيضا بعد سطور لأنها كالقاضي لا تعرف منه إلا الظاهر.‘‘

فتاویٰ شامی (4/439) میں ہے:

إنه [أي الغضب] على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، ….. الثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده…. الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، والادلة تدل على عدم نفوذ أقواله اه…. لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافا لابن القيم اه.

وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش…… والذي يظهر لي أن كلا من المدهوش والغضبان لا يلزم فيه أن يكون بحيث لا يعلم ما يقول، بل يكتفى فيه بغلبة الهذيان واختلاط الجد بالهزل، كما هو المفتى به في السكران …. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته …. فما دام في حالة غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لا تعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها. ………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved