• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آزاد ہی رہو

استفتاء

ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دیں جن کی صورت یہ ہے

پہلی مرتبہ کہا کہ ’’تم مجھ پر حرام ہو‘‘ اس کے بعد نکاح کر لیا پھر سال گزرنے کے بعد طلاق کے لفظ سے طلاق دی پھر رجوع کر لیا۔ پھر تقریباً ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد دن کے وقت میاں بیوی میں گھریلو بات پر لڑائی ہوئی  رات کو بیوی میاں کو منانے لگی اور میاں نہیں مان رہا تھا پھر بیوی نے تنگ آکر کہا کہ اس زندگی سے آزادی بہتر ہے۔ اس پر میاں نے کہا کہ ’’آزاد ہی رہو‘‘ جس سے خاوند کی مراد طلاق دینا نہیں تھا بلکہ اس سے مراد یہ تھا کہ میں تمہارے معاملات میں نہیں بولتا ابھی مجھ سے بات نہ کرو، اور بیوی کی مراد بھی طلاق لینا نہیں تھی۔ اور اس میں مذاکرہ طلاق بھی نہیں چل رہا تھا ۔

یاد رہے کہ ہمارے عرف میں اس سے طلاق مراد نہیں لی جاتی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کا اپنی بیوی کے کہنے پر کہ ’’اس زندگی سے آزادی بہتر ہے‘‘ یہ کہنا کہ ’’آزاد ہی رہو‘‘ کنایات کی دوسری قسم میں داخل ہے لہذا اگر شوہر کی اس جملہ سے طلاق کی نیت نہیں تھی اور وہ نیت نہ ہونے پر اپنی بیوی کے سامنے قسم بھی اٹھا لیتا ہے تو اس کہنے سے طلاق نہیں ہوئی۔

اور اگر قسم نہیں اٹھاتا تو بیوی اپنے حق میں اسے طلاق ہی سمجھے گی۔

شامی (4/521) میں ہے:

و كذا كوني حرة.

اور دوسری جگہ (4/521) ہے:

و في الغضب توقف الأولان إن نوى وقع و إلا لا……….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved