• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کثیر المنزلہ عمارت میں مسجد شرعی بنانے سے متعلق

استفتاء

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے

گذرشتہ دنوں *** جامعۃ *** سے ایک تحریر *** دار العلوم *** ارسال کی گئی جس میں اس بات کی طرف رجحان ظاہر کیا گیا کہ ضیق المنازل کی مجبوری اور آبادی کی کثرت کے پیشِ نظر امام ابو *** اور امام *** رحمہما اللہ سے منقول روایات کے مطابق مسجد شرعی کے لیے علو اور سفل کا وقف ہونا ضروری قرار نہ دیا جائے۔ اس تحریر پر *** جامعہ دار العلوم *** کے رفقاء نے غور و خوض کیا اور یہ تحریر حضرت مولانا مفتی *** *** *** صاحب *** مجدہم کی خدمت میں بھی پیش کی گئی، حضرت والا نے ان غیر الروایہ روایتوں کی اصل ماخذ سے مکمل تحقیق اور دیگر مذاہب کی کتب کی طرف بھی مراجعت کرنے کے لیے فرمایا۔

دار العلوم *** کے استاد مولانا *** نے اساتذہ کرام کے مشورہ سے اس سلسلہ میں متعلقہ عبارتیں چاروں فقہ سے جمع کیں اور ان کی روشنی میں ایک تحریر تیار کی ہے، جسے *** جامعہ دار العلوم *** کے رفقاء کرام نے ملاحظہ فرمایا اور اسے حضرت مولانا مفتی *** *** *** صاحب *** مجدہم کی خدمت میں بھی پیش کیا گیا، حضرت *** مجدہم نے اس پر اپنی رائے تحریر فرما دی ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اس سلسلہ میں دیگر دُوَر الافتاء سے بھی استصواب کرنا چاہیے، اس لیے یہ تحریرات آپ حضرات کی خدمت میں پیش خدمت کی جا رہی ہیں۔

برائے کرم ان پر غور فرما کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔ عین نوازش ہو گی۔ و السلام

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ظاہر الروایہ کے مطابق تو مسجد شرعی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ علو اور سفل بھی مسجد ہوں یا مسجد پر وقف ہوں یا مصالح مسجد میں مشغول ہوں، البتہ امام رافعی رحمہ اللہ نے اس میں م*** تعمیم ہی فرمائی کہ اگر علو یا سفل مصالح مسجد کے لیے وقف نہیں، لیکن مسلمانوں کے عام مصالح کے لیے مختص ہیں، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تو بھی مسجدِ شرعی ہونے سے مانع نہیں۔  (دیکھیے عبارت نمبر 23)

اگر علو یا سفل کسی کی ذاتی ملکیت ہوں تو ظاہر الروایہ کے مطابق تو یہ جگہ مسجدِ شرعی نہیں ہے، لیکن صاحبِ ہدایہ نے اس صورت کے بارے میں م*** تین روایات نقل فرمائی ہیں:

نمبر  1:  حسن ابن زیاد رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ اگر سفل مسجد ہے اور علو مسکن ہے تو یہ مسجد شرعی

ہونے سے مانع نہیں۔ اس کی بر عکس صورت میں یہ جگہ مسجدِ شرعی نہیں ہو گی۔

نمبر 2: امام *** رحمہ اللہ سے اس کے بر عکس منقول ہے کہ اگر علو مسجد ہے اور سفل مسکن ہے یا ذاتی استعمال میں مشغول ہے تو یہ مسجد شرعی ہونے سے مانع نہیں، اس کی بر عکس صورت میں یہ مسجد شرعی نہیں ہو گی۔

نمبر 3: امام ابو *** رحمہ اللہ جب بغداد تشریف لائے اور مکانات کی تنگی دیکھی تو یہ فتویٰ دیا کہ علو اور سفل دونوں مسکن ہیں یعنی ذاتی استعمال میں مشغول ہیں تو بھی یہ مسجدِ شرعی ہونے سے مانع نہیں اور امام *** رحمہ اللہ جب رے شہر تشریف لے گئے تو انہوں نے بھی یہ فتویٰ دیا۔

یہ غیر الروایہ روایات شرحِ ہدایہ نے بھی نقل کی ہیں اور ان کی تشریح کی ہے، لیکن کسی نے ان کی تردید نہیں کی، علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ نے انہیں روایات ضعیفہ سے تعبیر کیا ہے اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ کی یہ بات نقل کی اور اس پر کوئی تبصرہ نہیں فرمایا۔ امام سرخسی رحمہ اللہ نے مبسوط میں بھی یہ تینوں روایات نقل فرمائی ہیں اور آخر میں امام ابو *** رحمہ اللہ کا فتویٰ نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:

و هو مستقيم علی أصله، و قد بينا أنه يوسع في الوقف فكذلك في المسجد.

وقف کے مسائل میں امام ابو *** رحمہ اللہ کی رائے پر فتویٰ ہونے کی صراحت حضرات فقہاء کرام رحمہم اللہ نے کی ہے۔ (دیکھیے عبارت نمبر 6 اور 7)

ائمہ ثلاثہ یعنی حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کے نزدیک مسجدِ شرعی ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ علو اور سفل مسجد ہوں یا مصالح مسجد میں مشغول ہوں بلکہ اگر علو اور سفل دونوں یا ان میں سے کوئی ایک ذاتی ملکیت میں مشغول ہے تو یہ مسجدِ شرعی ہونے سے مانع نہیں۔ (دیکھئے عبارت نمبر 16 سے 22)

موجودہ دور میں آبادی کے اضافہ اور زمین کے مہنگے ہونے کی وجہ سے کثیر المنزلہ رہائشی عمارات اور خریداری کے مراکز کا رجحان تیزی سے بڑھتا رہا ہے اور ان کثیر المنزلہ عمارات میں عام طور پر نماز کے لیے مناسب جگہ مخصوص تو کی جاتی ہے، لیکن یہ ممکن نہیں ہوتا کہ کسی جگہ کو اس طرح وقف کر کے مسجد بنا دیا جائے کہ اس کا علو اور سفل بھی یا تو مسجد ہو یا مصالح مسجد کے لیے وقف ہو یا مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت کے لیے وقف ہو، ایسی صورتوں میں ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ حضرات صاحبین رحمہما اللہ سے منقول روایات اور ائمہ رحمہم اللہ کے مذہب پر فتویٰ دینے کے لیے اجتماعی غور و خوض کیا جائے جبکہ ضیق المنازل کی علت آج کے دور میں اس سے کہیں زیادہ پائی جا رہی ہے جس کا مشاہدہ حضرات صاحبین رحمہما اللہ نے اپنے زمانہ میں کیا تھا۔

اب اگر اجتماعی غور و خوض میں اس کی گنجائش کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں درج شرائط کا لحاظ رکھ کر گنجائش دینا مناسب ہو گا:

1۔ یہ گنجائش وہاں دی جائے جہاں علو اور سفل کو وقف کرنا مشکل ہو جیسے کثیر المنزلہ عمارات وغیرہ۔

2۔ جو حصہ مسجد کے لیے وقف کیا جا رہا ہے اس کی مسجدیت کو قانونی تحفظ دیا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی اس جگہ کو مسجد کے علاوہ کسی اور مقاصد میں استعمال نہ کر سکے۔

3۔  قانونی کاغذات میں اس کی وضاحت ہونی چاہیے کہ اس کی خرید و فروخت ممکن نہیں ہو گی۔

4۔ آئندہ اگر عمارت بیچی جائے تو بیع میں مسجد کی جگہ شامل نہیں ہو گی اور نہ اس کا کوئی معاوضہ لیا جائے گا۔

5۔ اور اگر کبھی عمارت منہدم ہو گئی تو جو حق دیگر فلیٹس اور دکانات کے مالکان کو ملے گا وہ مسجد کو بھی ملے گا، اور مسجد کی انتظامیہ اس کی ذمہ دار ہو گی کہ جو معاوضہ ملے اس سے اگر کہیں اور مسجد بنائی جا سکتی ہے تو مسجد بنائی جائے ورنہ کسی قریب ترین مسجد میں یہ رقم لگائی جائے گی۔

یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر اس کثیر المنزلہ عمارت کے مختلف حصے کرایہ پر دیے ہوئے ہیں اور اس میں ایک حصہ مسجد کے لیے بھی وقف کیا گیا ہے اور آئندہ یہ مکمل عمارت بیچی جاتی ہے تو اس صورت میں مسجد کا بیچنا لازم آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عمارت بیچتے وقت اس کی صراحت ضروری ہو گی کہ اس کی فلاں منزل یا فلاں مخصوص جگہ مسجد کے لیے وقف ہے وہ بیع میں شامل نہیں اور نہ اس کے عوض ثمن لی جا رہی ہے (دیکھیے عبارت نمبر 36) اب خریدار کو اختیار ہے کہ اس طرح یہ عمارت خریدے یا نہیں؟ اگر وہ خرید لیتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس  مسجد کو باقی رکھے۔

اسی طرح یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ اگر یہ عمارت منہدم ہو جائے یا کر دی جائے تو اس صورت میں مسجد تو باقی نہیں رہے گی؟ اس کو جواب یہ ہو سکتا ہے کہ عمارت منہدم ہونے کی صورت میں دکانوں اور مکانات کے مالکان کو قانوناً جو حق اس زمین میں حاصل ہے وہی حق مسجد کو بھی حاصل ہے، انہیں جو معاوضہ ملے گا وہ مسجد کو بھی ملے گا اور مسجد کی انتظامیہ کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ معاوضہ وصول کریں اور اس معاوضہ سے اگر کہیں اور مسجد بنائی جا سکتی ہے تو مسجد بنائی جائے ورنہ امام ابو *** رحمہ اللہ کے قول ثانی کے مطابق کسی اور قریب ترین مسجد میں بھی یہ رقم لگائی جا سکتی ہے۔ (عبارت نمبر 39) و اللہ سبحانہ اعلم

(دوسرے حضرات کی رائے)

باسمہ تعالیٰ: میں نے یہ جواب دیکھ لیا ہے، اور اس میں جن جن شرائط کا اضافہ کرنا ضروری تھا ان کا ذکر آ گیا ہے، اور بظاہر محتاط پہلو کو سامنے رکھا گیا ہے، اب اگر امام ابو *** اور امام *** رحمہما اللہ کی رائے کو لیا جائے اور جواب میں ذکر کردہ شرائط کا لحاظ رکھا جائے تو بظاہر غیر ظاہر الروایت کے مطابق فتویٰ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، لیکن حتمی رائے کے لیے حضرت نائب صدر صاحب مد ظلہم کی خدمت اقدس میں پیش کرنا ضروری ہے، نیز دیگر اہلِ فتاویٰ سے بھی رجوع کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

باسمہ سبحانہ بندہ نے یہ تحریر دیکھی، الحمد للہ محقق ہے، اور موجودہ شہری زندگی، بالخصوص غیر مسلم ممالک میں اس پر فتویٰ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، البتہ فتویٰ دینے سے پہلے دوسرے دور الافتاء سے رجوع کر کے استصواب کرنا چاہیے، بصورت دیگر انتشار کا اندیشہ ہے۔ و اللہ سبحانہ اعلم

بندہ کو بھی مذکورہ تحریر مناسب اور محتاط معلوم ہوتی ہے، تاہم دیگر اہل فتویٰ حضرات سے بھی رائے لینا عین مناسب ہے۔

بندہ عبد الرؤف سکھروی

الجواب: بسم اللہ حامداً و مصلیاً

مذکورہ فتوے سے متعلق چند نکات پیشِ خدمت ہیں:

1۔ مذکورہ فتوے میں امام ابو *** رحمہ اللہ اور امام *** رحمہ اللہ سے منقول اس عبارت:

(و عن أبي يوسف أنه جوز في الوجهين حين قدم بغداد …. و عن *** رحمه الله أنه حين دخل الري أجاز ذلك كله)

کا جو مطلب لیا گیا ہے یعنی یہ کہ "اگر علو اور سفل دونوں مسکن ہیں یعنی ذاتی استعمال میں  مشغول ہیں تو پھر بھی یہ مسجد شرعی ہونے سے مانع نہیں”۔

ہمارے خیال میں اس عبارت کا یہ مطلب درست نہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ظاہر الروایہ سے ہٹ کر حسن بن زیاد رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق صرف سفل کو مسجد بنانے کی اجازت تو ہے لیکن علو کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ اور امام *** رحمہ اللہ سے منقول روایت کے مطابق صرف علو کو مسجد بنانے کی  اجازت ہے، لیکن سفل کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ جبکہ امام ابو *** رحمہ اللہ  کی "بغداد” داخل ہونے کے بعد اور امام *** رحمہ اللہ کی "رے” میں داخل ہونے کے بعد یہ رائے بنی کہ علو  کو بھی مسجد بنا سکتے ہیں اور سفل کو بھی مسجد بنا سکتے ہیں۔ چنانچہ مبسوط سرخسی کی عبارت میں ہے:

عن أبي يوسف أن ذلك جائز رجع إليه حين قدم بغداد …. فجوز أن يجعل العلو مسجداً دون السفل و السفل دون العلو.

اس عبارت سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ امام ابو *** رحمہ اللہ اور امام *** رحمہ اللہ جو دونوں صورتوں میں مسجد کی اجازت دے رہے ہیں اس کی صورت یہی ہے کہ صرف علو کو مسجد بنایا جائے یا صرف سفل کو مسجد بنایا جائے ۔ یہ مطلب نہیں کہ کسی درمیانی منزل کو بھی مسجد بنا سکتے ہیں۔ لہذا غیر ظاہر الروایہ کی رُو سے صرف دو ہی صورتیں ہیں:

یا تو (i) سب سے نچلی منزل میں مسجد ہو اگر چہ زیر زمین ہو۔ (ii) یا سب سے اوپر کی منزل میں ہو جیسا کہ تعلیل سے معلوم ہوتا ہے، درمیان کی کوئی منزل نہ ہو۔ خود ہدایہ میں ہے:

و روی الحسن عنه (أي عن أبي حنيفة) أنه قال إذا جعل السفل مسجدا و علی ظهره مسكن فهو مسجد لأن المسجد مما يتأبد و ذلك يتحقق في السفل دون العلو. و عن *** علی عكس هذا لأن المسجد معظم، و إن  كان فوقه مسكن أو مستغل يتعذر تعظيمه، و عن أبي يوسف أنه جوز في الوجهين حين قدم بغداد و رأی ضيق المنازل فكأنه اعتبر الضرورة.

2۔ غیر ظاہر الروایۃ پر عمل کرنے کے لیے کثیر المنزل عمارت میں یہ طے کرنا ہو گا کہ اس کی کم از کم کتنی منزلیں ہوں۔

3۔ ترجیح اس کو دی جائے کہ کسی بھی کثیر المنزلہ عمارت کے ساتھ جیسے پارکنگ بنائی جاتی ہے اسی طرح اس کی سطح زمین پر مسجد شرعی بنائی جائے۔ قانون سازی کر کے مالک پر لازم ہو کہ وہ مسجد بنائے اور متعلقہ محکمے مسجد کے بغیر نقشہ پاس نہ کریں۔

4۔ مجبوری میں ظاہر الروایۃ پر عمل کرتے ہوئے مصلّٰی بنانے پر اکتفاء کیا جائے تو یہ بھی درست ہے اور نیت ہو کہ مسجد شرعی

پہنچ میں ہوتی تو اس میں جا کر نماز پڑھتے تو اس کی وجہ سے مسجد شرعی میں نماز پڑھنے کے ثواب سے محرومی نہ ہو گی انشاء اللہ۔ یہ بات اس وجہ سے لکھی ہے کہ کثیر المنزلہ عمارتیں ہر بڑے شہر میں بہت ہیں اور آباد ہیں۔ ان میں سے کوئی جگہ خالی کروانا ہو سکتا ہے مشکل ہو، ممکن ہے کہ کرایہ دار یا مالک اس کے لیے تیار نہ ہو۔

علاوہ ازیں جب غیر ظاہر الروایۃ کے مطابق شرعی مسجد صرف سب سے اوپر کی منزل میں یا سب سے نچلی منزل میں بن سکتی ہے تو اوپر نیچے والوں کو خاصی مشقت اٹھانا ہو گی اور وہ یہ چاہیں گے کہ درمیان کی منزل میں کوئی مصلی بن جائے، دفتروں میں بھی اور فلیٹس میں بھی۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

نوٹ: حوالجات کے اصل فتویٰ کی طرف رجوع فرمائیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved