• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے چندہ کو کاروبار میں لگانا

استفتاء

بخدمت جناب مفتی صاحب!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

گذارش ہے کہ ہم نے مسجد کی توسیع کے لیے اپیل کی، تو کافی لوگوں نے رقم کا بندوبست کر دیا۔ لیکن متعلقہ جگہ کا سودا نہ ہو سکا، وہ رقم ہم نے بینک میں جمع کرا دی۔ ملکی کرنسی کا نرخ کم ہو رہا ہے۔ اس لیے تجویز ہے کہ اس رقم کو کسی جگہ لگا دیا جائے تاکہ پراپرٹی کا نرخ بڑھنے پر فروخت کر کے مزید رقم کا بندوبست ہو سکے۔ آپ سے درخواست ہے کہ کیا اس تجویز پر قم مناسب مصرف میں لگ سکتی ہے؟ یا دیگر مناسب مصرف بتائیں جس سے بوقت ضرورت رقم حاصل کر کے مطلوبہ جگہ مسجد کے لیے خریدی جا سکے۔

نوٹ: جن لوگوں نے رقم کا بندوبست کیا، ان کا ریکارڈ ہمارے پاس نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مسجد کی توسیع کے لیے جمع کی گئی رقم سے کوئی پلاٹ خرید سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ایک تو انتظامیہ کو نفع کی غالب امید ہو، اور دوسرے انتظامیہ کا غالب گمان یہ ہو کہ چندہ دہندگان کو اس پر اعتراض نہ ہو گا۔  چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

القيم إذا اشترى من غلة المسجد حانوتاً أو داراً أن يستغل و يباع عند الحاجة جاز إن كان له ولاية الشراء و إذا جاز له أن يبيعه، كذا في السراجية. (الفتاوى الهندية: 2/ 462)

الفاضل من وقف المسجد هل يصرف إلى الفقراء قيل لا يصرف و أنه صحيح و لكن يشتري به مستغلاً للمسجد. (الهندية: 2/ 463)

’’مسجد کا متولی مسجد کی بہتری کے لیے اپنی صوابدید پر مسجد کے چندہ میں تصرفات کر سکتا ہے۔ اگر خرید و فروخت میں مسجد کا فائدہ ہو تو متولی کو یہ حق حاصل ہے، تاہم چندہ دہندگان سے اجازت مستحسن ہے۔‘‘ (فتاویٰ حقانیہ: 5/ 125)

’’سوال: ***متولی نے ***کو مسجد کی رقم مضاربت پر دیدی کہ جو نفع آئے وہ مسجد کے کام میں لگا دیا جائے۔ کیا یہ شرعاً درست ہے؟

جواب:  اگر نفع کی توقع غالب ہو تو جائز ہے۔‘‘ (احسن الفتاویٰ: 6/ 463)

’’چندہ دہندگان کی اجازت سے مسجد کا روپیہ مسجد کے لیے تجارت کرنا جائز ہے۔‘‘ ( مسائل بہشتی زیور: 2/ 190) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved