• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا/ علاقہ سوات میں چند گھروں کے ساتھ بنائے مسجد سے متعلق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے پر دادا نے اپنے گھر کے ایک کونے کو مسجد کے لیے وقف کر کے ایک بزرگ آدمی سے مسجد کی بنیاد رکھوائی، اور پھر اس کی تعمیر  کو بھی  مکمل کیا، لیکن انہوں نے اس کا نہ کوئی امام مقرر کیا اور نہ ہی کوئی مؤذن ، وہ خود  بھی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے دوسری مسجد جایا کرتے تھے۔ اب بھی اس مسجد کا نہ کوئی امام مقرر ہے اور نہ ہی مستقل طور اس میں نماز و اذان ہوتی ہے اور نہ ہی اب اس میں اذن عام ہے، کیونکہ اب وہ ہمارے گھر کی چار دیواری میں آچکی ہے۔ البتہ کسی خاص موقع پر مثلاً شادی یا دعوت وغیرہ پر آنے والے لوگ اس میں اذان دے کر نماز با جماعت پڑھ لیتے ہیں۔ اس مسجد میں گذشتہ دس سال سے رمضان میں نماز تراویح میں قرآن بھی سنایا جاتا ہے، اس میں صرف گھر کے افراد ہی شریک ہوتے ہیں، باہر کے لوگ نہیں ہوتے۔ چند سال تو اس کا دروازہ شارع عام کی طرف تھا، لیکن اب ہم نے اس کو گھر کی چار دیواری میں شامل کر لیا ہے۔

اب ہم چاہتے ہیں کہ اس مسجد کی جگہ کسی دوسری جگہ ایک بڑی مسجد بنائیں اور اس حجرہ نما مسجد کو گھر کے تعمیراتی منصوبہ کے تحت استعمال کریں۔ جبکہ  ہم نے اب اس کو گھر کی چار دیواری میں بھی شامل کر لیا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ حجرہ نما مسجد مسجد شرعی بن گئی ہے یا نہیں؟ اگر بن گئی ہے تو کیا اس حجرہ نما مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا اور اس جگہ کو گھر کی تعمیرات میں شامل کر کے  استعمال کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

واضح رہے کہ واقف وقف کرنے کے بعد اس حجرہ میں خود کبھی کبھی بغیر اذان کے نماز پڑھتا تھا۔ البتہ واقف کا ایک دوست تھا وہ جب ان کے پاس آتا تو وہ ان کی موجودگی میں اذان دے کر واقف کو بھی نماز پڑھاتا تھا۔ واقف کی وفات کے تقریباً دس بارہ سال بعد واقف کے پوتوں نے بھی اذان و اقامت کے ساتھ اس حجرہ نما مسجد میں کئی نمازیں با جماعت پڑھی ہیں، لیکن مستقل طور پر اذان و اقامت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی جاتی، بلکہ کبھی کبھار جب واقف کے پوتے مدرسوں سے چھٹی پر گھر آتے ہیں تو اذان واقامت کے ساتھ باجماعت نماز پڑھتے ہیں، تاہم عام لوگ ان کے ساتھ نماز میں عام طور سے شریک نہیں ہوتے، کیونکہ وہ حجرہ نما مسجد گھر کی چار دیواری میں  آ گئی ہے۔

چند وضاحتیں:

1۔ ہمارے علاقے میں لوگ بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہیں اور وہ اپنے گھر ان زمینوں میں ہی بناتے ہیں، اور گھروں کا  آپس میں کھیتوں کی وجہ سے کافی فاصلہ ہوتا ہے اور چونکہ ہمارے علاقے میں لوگوں کی آپس کی دشمنیاں شروع سے چلتی آ رہی ہیں، اور بعض اوقات اسی خوف کی وجہ سے وہ لوگ علاقے کی بڑی مسجد میں نماز کے لیے نہیں  جا سکتے۔ لہذا وہ اپنے گھروں میں ایسی حجرہ نما مسجد بنا لیتے ہیں۔ لیکن ان سب میں کبھی بھی کسی مسجد کا مؤذن یا امام مقرر نہیں ہوا۔

2۔ واقف نے وقف کرتے وقت یہ کہا تھا  کہ’’میں یہ جگہ مسجد کے لیے وقف کر رہا ہوں‘‘۔

3۔ سب سے پہلے جب اس مسجد کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو اس میں  تین آدمی شریک تھے، ایک  پر دادا، دوسرے میرے دادا اور تیسرے رشتہ داروں میں سے ایک بزرگ آدمی تھے، ان تین ساتھیوں نے اس مسجد کی بنیاد رکھی، ان میں سے دو وفات پا چکے ہیں اور ایک میرے دادا جان حیات ہیں۔

4۔ مسجد کا رقبہ ایک مرلہ ہے، اور ابتداء ہی سے اس مسجد میں نہ محراب بنایا گیا تھا اور نہ منارہ، بعد میں واقف کے پوتوں نے اس میں محراب بنا دیا اور منارہ اب بھی  نہیں ہے۔

5۔ علاقے میں لوگ اس طرح کی مساجد کو مسجد ہی سمجھتے ہیں، البتہ گھروں میں ہونے کی وجہ سے اور چھوٹا ہونے کی وجہ سے عام طور پر لوگ اذان دےکر نماز نہیں پڑھتے۔

6۔ رمضان میں صرف مصلیٰ نہیں سنایا جاتا بلکہ پہلے اذان دے کر با جماعت عشاء کی نماز ہوتی ہے اس کے بعد تراویح میں قرآن سنایا جاتا ہے۔

چند وضاحتیں اور ان کا جواب:

1۔ س: کیا پہلے اس میں اذن عام تھی؟

ج: جی ہاں! پہلے اس میں اذن عام تھی۔ کیونکہ یہ مسجد گھر سے چند قدم کے فاصلہ پر تھی اور اس کا دورازہ بھی باہر کی طرف تھا۔

2۔ س: کیا لوگوں کو بھی یہ معلوم تھا کہ یہ جگہ مسجد ہے یا مسجد کے لیے وقف ہے؟

ج: جی ہاں! لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ یہ مسجد ہے۔

3۔ س: آپ لوگ خود اب تک اس جگہ کو کیا سمجھتے رہے؟

ج: ہم اس کو آج تک مسجد ہی سمجھتے رہے ہیں۔

4۔س:  کیا باہر کے لوگوں کو اس مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا جاتا تھا یا وہ ویسے ہی نہیں آتے تھے؟

ج: پہلے چونکہ چار دیواری سے باہر تھی اس لیے پہلے نہیں روکا جاتا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ واقف نے اس جگہ کو وقف کرتے وقت یہ کہا تھا کہ ’’میں یہ جگہ مسجد کے لیے وقف کر رہا ہوں‘‘ اور واقف نے اس جگہ ایک بزرگ آدمی سے مسجد کی بنیاد بھی رکھوائی  اورپھرواقف کی موجودگی میں واقف کی اجازت سے اس حجرہ میں اذان و اقامت کے ساتھ با جماعت نماز بھی پڑھی گئی ہے۔ لہذا یہ حجرہ مسجد شرعی بن گیا ہے اور مسجد شرعی کا حکم یہ ہے کہ وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے، اس کا مسجد ہونا کبھی بھی ختم نہیں ہوتا، اس لیے اس مسجد کو کہیں منتقل کر کے اس کی جگہ کو گھر کے تعمیراتی منصوبہ میں استعمال  نہیں کر سکتے۔

في البحر الرائق (5/ 415):

من بنى مسجداً لم يزل ملكه عنه حتى يفرز عن ملكه بطريقه و يأذن بالصلاة فيه فإذا صلى فيه واحد زال ملكه.

و في الشامية(6/ 547):

و يزول ملكه عن المسجد و المصلى) بالفعل و (بقوله: جعلته مسجداً) عند الثاني ( و شرط محمد) و الإمام (الصلاة فيه) بجماعة … قال العلامة الشامي تحته: لأنه لا بد من التسليم عندهما … و اشتراط الجماعة لأنها المقصودة من المسجد و لذا شرط أن تكون جهراً بأذان و إقامة و إلا لم يصر مسجداً و إذا اتحد الإمام و المؤذن و صلى فيه صار مسجداً بالاتفاق.

و في التنوير مع الدر (6/ 550):

و لو خرب ما حوله و استغني عنه يبقى مسجداً عند الإمام و الثاني أبداً إلى قيام الساعة، و به يفتى. قال العلامة الشامي تحت قوله (عند الإمام و الثاني) فلا يعود ميراثاً و لا يجوز نقله و نقله ماله إلى مسجد آخر سواء كانوا يصلون فيه أو لا، و هو الفتوى، حاوي القدسي. و أكثر المشائخ عليه، مجتبى. و هو الأوجه فتح.

مسائل بہشتی زیور (2/ 183) میں ہے:

’’مسجد میں وقف اس سے لازم ہوتا ہے کہ مسجد ہر اعتبار سے مالک کی ملکیت سے نکل جائے اور واقف کی اجازت کے بعد اس میں اذان و اقامت کے ساتھ با جماعت نماز پڑھی جائے، اگرچہ ایک آدمی ہو جس نے اذان کہی اور امامت بھی اس نے کرائی، کوئی اور نہ آیا تو اس کی تنہا ادائیگی جماعت کی مثل ہو گی۔‘‘

اذن عام سے متعلق حوالہ جات[1]

في النقاية مع شرحه (2/ 565):

(مسجد بنى و أفرز بطريقه) أي ميز به عن غيره بتعينه (و أذن للناس بالصلاة فيه) أي إذناً عاماً (و صلى فيه واحد) فإنه أيضاً يزول ملكه عنه لأنه جعله خالصاً لله تعالى، وشرط الإفراز لأنه لا يخلص لله إلا به و الإذن بالصلاة لأن التسليم لا بد منه عند أبي حنيفة و محمد و هو (أي التسليم: الهامش) في المسجد بذلك لأنه في كل شيء بحسبه.

و في فتح القدير (6/ 216):

إن العرف جار بأن الإذن في الصلاة على وجه العموم و التخلية يفيد الوقف على هذه الجهة فكان كمن قدم طعاماً إلى ضيفه أو نثر نثاراً كان إذناً في أكله في أكله و التقاطه.

و في التاتارخانية (5/ 571):

و أذن للناس بالدخول فيه عامة.

امداد المفتین (635):

’’سوال: مسجد شرعی کس کو کہتے ہیں؟

الجواب: مسجد شرعی وہ ہے کہ کوئی ایک شخص یا چند اشخاص اپنی مملوکہ زمین کو مسجد کے نام سے اپنی ملک سے جدا کر دیں اور اس کا راستہ شاہ راہ عام کی طرف کھول کر عام مسلمانوں کو اس  میں نماز پڑھنے کی اجازت دیدیں، جب ایک مرتبہ اذان  و جماعت کے ساتھ اس جگہ میں نماز پڑھ لی جاوے تو یہ جگہ مسجد ہو جائے گی۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

میں *** زمین مسجد و مدرسہ کے لیے خریدی ہے لیکن میں اس کے بنانے اور انتظامی امور چلانے سے قاصر ہوں۔ لہذا میں نے وزیر گل کو (جو اس وقت حبیب میٹرولیشن بینک میں ملازمت کر رہا ہے) اس کام یعنی مدرسہ و مسجد کے انتظامی امور چلانے کے لیے اس لیے چنا ہے کہ وزیر گل بینک کی ملازمت چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہے اور دین کی خدمت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ دین کے بارے میں وزیر گل کافی سنجیدہ ہے اور میں اس لیے ان کو منتخب کیا ہے کہ وہ بینک کی ملازمت سے نکل آئے۔ لیکن کچھ علماء اس کے خلاف ہیں کہ یہ آپ نے بڑا جرم کیا ہے۔ یہ اہل بالکل نہیں ہے۔

سوال: کیا میں وزیر گل کو ان انتظامی و تعمیری خدمات کے لیے یعنی مسجد کے مؤذن و خطیب اور امام کا انتظام کرنے کے لیے مہتمم بنا سکتا ہوں؟ کہ آگے چل کر یہ بینک کی ملازمت سے چھٹکارا حاصل کرے، یا نہیں؟ آپ کے فتویٰ کا منتظر ہوں۔ جزاک اللہ خیراً

وضاحت مطلوب ہے: (1) علماء کی مخالفت کی کیا وجہ ہے؟

2۔ وزیر گل کی مذہبی تعلیم اور پس منظر کیا ہے؟

جواب: (1) علماء کی مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں جو میں سمجھ رہا ہوں۔ اس لیے کہ باقی علماء سے جب میں نے پوچھا تو کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا کار خیر ہے کہ اب اس (وزیر گل) کو وہاں سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہے ہو۔ یہ ایک عالم اور ایک مفتی صاحب ہے جو زبانی مجھے اس طرح کہہ رہے ہیں لکھ کر فتویٰ نہیں دے رہے۔ اور یہی قبضہ کرنے پر کوشش کر رہے ہیں۔

2۔ باقی وزیر گل دینی ذہن رکھنے والا، بہترین حافظ و قاری ہے۔ اپنے استاد سے کافی کتابیں (خلاصہ، منیہ، غنیہ، نور الایضاح، قرآن پاک کا کافی سپاروں کا ترجمہ کیا ہے) اور بدقسمتی سے بینک کے ملازمت میں نہ چاہتے ہوئے پھنس چکا ہے۔ دیندار گھرانے سے تعلق ہے۔ دوسرا بھائی عالم ہے اس وقت علم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ میں چھٹیاں میں کلاسیں لے رہا ہے۔  آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

[1] جو حوالے اذن عام کے تھے ان سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسجد شرعی نہیں بنی۔ کیونکہ بظاہر واقف نے اپنے علاقے کی نوعیت کے پیشِ نظر یہ جگہ صرف اپنے اور گھر کے افراد کے نماز پڑھنے کے لیے وقف کی یا مقرر کی۔ علاقے کا کوئی بھی فرد  اس مسجد میں آکر نماز پڑھے بظاہر واقف کی یہ غرض نہیں تھی۔ لہذا مذکورہ صورت میں اذن عام کا تحقق نہیں ہوا۔ لیکن اس پر مزید غور کیا جائے۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved