• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد کے چندہ سے مرحومہ کی بیوی، اور والدہ کو تنخواہ دینا

استفتاء

بخدمت جناب مفتی صاحب

نہایت ادب سے گذارش ہے کہ ہماری مسجد انار کلی میں مکی مسجد نیو انار کلی لاہور ہے جو کہ محکمہ اوقاف کی مسجد ہے، وہاں پر امام صاحب اور مؤذن صاحب محکمہ اوقاف کے سرکاری ملازم ہیں جو گورنمنٹ سے تنخواہ لیتے ہیں۔ وہاں امام صاحب تھے زبیر صاحب جو وفات پاچکے ہیں۔

1۔ کیا امام صاحب  زبیر صاحب کی بیوی اور امام صاحب کی والدہ کو مسجد کے چندہ میں سے ماہانہ تنخواہ دینا جائز ہے؟

اوقات کے ملازم کو مسجد کے چندہ میں سے تنخواہ دینا

2۔ کیا امام صاحب اب جو زبیر صاحب مرحوم کے بیٹے ہیں محکمہ اوقاف کے سرکاری ملازم ہیں گورنمٹ سے تنخواہ لیتے ہیں ان کو مسجد کے چندہ میں سے تنخواہ دینا جائز ہے؟

وضاحت: مسئلہ پوچھنے کا مقصد یہ ہے کہ کمیٹی کوئی کام خلاف شرع نہ کرے۔ امام صاحب کو چونکہ تنخواہ پہلی کمیٹی دیتی تھی اس لیے نئی کمیٹی مسئلہ معلوم کرنا چاہتی ہے کہ امام احب کا سلسلہ جائز طریقہ سے جاری رہے۔ بیچ میں کچھ عرصہ سے امام صاحب کی تنخواہ کمیٹی کی طرف سے بند کر دی گئی تھی کہ انہیں سرکاری تنخواہ ملتی ہے۔

وضاحت مطلوب ہے:

1۔ والدہ اور بیوی کو مسجد کے چندہ میں تنخواہ دینے کی کیا وجوہات ہیں؟

2۔ امام صاحب کے بیٹے زبیر صاحب کو مسجد کے چندہ سے تنخواہ دینے کی کیا وجوہات ہیں؟

ایک مسجد میں لگے ہوئے ٹائم ٹیبل کو دوسری مسجد منتقل کرنا

گرامی قدر مفتی صاحب! گذارش ہے کہ ایک مسجد میں نمازوں کے اوقات کے الیکٹرانک ٹائم ٹیبل دو عدد (ایک بڑا اور ایک

چھوٹا) لگے ہوئے ہیں۔ ایک نمازی نے ایک عدد ٹائم ٹیبل بڑے سائز کا عطیہ کیا ہے۔ نمازی صاحب کا کہنا ہے کہ چھوٹا اتار کر انہیں واپس کر دیں وہ کسی اور مسجد میں لگانا چاہتے ہیں۔ کیا اس طرح ایک مسجد کی چیز دوسری مسجد میں بغیر کسی معاوضہ یا رقم کے منتقل کرنا جائز ہے۔ واضح رہے کہ پہلی مسجد میں اس چھوٹے ٹائم ٹیبل کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر اس ٹائم ٹیبل کی اس مسجد میں نہ فی الحال ضرورت ہے اور نہ مستقبل قریب میں ضرورت ہے تو یہ ٹائم ٹیبل کسی قریب کی ایسی مسجد میں جس میں اس کی ضرورت ہو بلا معاوضہ دے سکتے ہیں۔

فتاویٰ شامی (6/551) میں ہے:

ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجداً عند الإمام والثاني … وعاد إلى الملك …عند محمد  وعن الثاني ينقل إلى مسجد آخر بإذن القاضي ومثله في الخلاف المذكور حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما … فيصرف وقف المسجد … إلى أقرب مسجد.

امداد الفتاویٰ (2/597)

ایک مصرف سے استغناء کے وقت اسی مصرف کے مماثل میں صرف کرنا چاہیے  جیسے مسجد مسجد، مدرسہ مدرسہ، و نحوہ استغناء امر جامع ہے درمیان خراب ہونے اور فاضل رہنے کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved