- فتوی نمبر: 33-10
- تاریخ: 18 مارچ 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > اصول دین
استفتاء
صحیح مسلم،حدیث نمبر: 1472(3673) میں ہے:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: إِنَّ النَّاسَ قَدِ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ قَدْ كَانَتْ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ، فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ.
معمرؒ نے ہمیں ابن طاوسؒ سے خبر دی ، انہوں نے اپنے والد ( طاوس بن کیسان ) سے ، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ، انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ( ابتدائی ) دو سالوں تک ( اکٹھی ) تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھی ، پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں نے ایسے کام میں جلد بازی شروع کر دی ہے جس میں ان کے لیے تحمل اور سوچ بچار تھا ۔ اگر ہم اس کو ان پر نافذ کر دیں اس کے بعد انہوں نے اسے ان پر نافذ کر دیا ۔ ( اکٹھی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے لگے) ۔
اسی طرح صحیح مسلم ،حدیث نمبر:3674میں ہے:
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رَافِعٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «نَعَمْ
اور صحیح مسلم ،حدیث نمبر:3675میں ہے:
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، أَنَّ أَبَا الصَّهْبَاءِ، قَالَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَاتِ مِنْ هَنَاتِكَ، «أَلَمْ يَكُنِ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً»؟ فَقَالَ: «قَدْ كَانَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ، فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ
سوال یہ ہے کہ: اس حدیث کی روسے جس طرح اہل حدیث بیان کرتے ہیں کہ تین طلاقوں کا مطلب ایک طلاق ہی ہےکیا یہ درست ہے؟
اگر ابتدا ًآقاﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں تین طلاق کا مطلب ایک طلاق تھا تو پھریہی سچ ہوا، مگر حضرت عمر ؓنے کیا آقاﷺ کا طریقہ بدل کر غلطی کی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
تین طلاقیں دینے کی کئی صورتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ آدمی ایک طہر میں ایک طلاق دے ، دوسرے میں دوسری طلاق دے اور تیسرے میں تیسری طلاق دے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا تین مختلف مجلسوں میں تین طلاقیں الگ الگ دے یعنی تین طلاقیں تین طہروں میں نہ دے مثلاً ایک مجلس میں یا تین متفرق مجلسوں میں اپنی بیوی کو یوں کہہ دے “میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق دی”
تیسری صورت یہ ہے کہ تین طلاقیں ایک ہی جملے میں دیدے مثلاً اپنی بیوی کو یوں کہہ دے “میں نے تجھے تین طلاقیں دیں”
مذکورہ حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ اس میں تین طلاقوں کی کون سی صورت مراد ہے۔اب اگر اس حدیث میں تین طلاقوں کی پہلی صورت مراد ہو تو یہ حدیث کسی کے نزدیک بھی قابل عمل نہیں کیونکہ تین طلاقوں کی پہلی صورت میں مقلدین، غیر مقلدین سب کے نزدیک تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں نہ کہ ایک طلاق۔
اس لیے اس حدیث کے ظاہر پر نہ مقلدین عمل کرتے ہیں اور نہ غیر مقلدین عمل کرتے ہیں بلکہ ہر فریق اس میں اپنی اپنی تاویل کرتا ہے، غیر مقلدین یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے دوسری اور تیسری صورت مراد ہے اسی لیے یہ حضرات جب اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہیں تو بریکٹ میں “اکٹھی” کا لفظ لکھتے ہیں حالانکہ حدیث میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس کا ترجمہ “اکٹھی” بنتا ہو لیکن ان کی یہ تاویل ایک تو بہت ساری ان احادیث کے خلاف ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپﷺ کے دور میں بھی تین طلاقوں کی دوسری اور تیسری صورت میں بھی تین طلاقیں ہی واقع ہوتی تھیں نہ کہ ایک طلاق۔ اور دوسرے ان کی یہ تاویل اس حدیث کے راوی حضرت ابن عباسؓ کے فتوے کے بھی مخالف ہے اور اہل علم کے ہاں یہ اصول مسلم ہے کہ صحابیؓ کا فتویٰ اگر اپنی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہو تو ان کی روایت کردہ حدیث حجت نہیں اور یہ خرابی غیر مقلدین کی مذکورہ تاویل کی وجہ سے لازم آرہی ہے ورنہ مقلدین کی تاویل (جو کہ آگے آرہی ہے) کے مطابق حضرت ابن عباسؓ کے فتوے کے باوجود بھی حجت رہتی ہے۔
اور تیسرے ان کی اس تاویل کی وجہ سے حضرت عمرؓ سمیت جمہور صحابہ کرامؓ پر بھی اعتراض آتا ہے کہ انہوں نے اس حکم کو کیسے بدل دیا جو آپﷺاور حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں موجود تھا، جبکہ مقلدین کی تاویل (جوکہ آگے آرہی ہے) کے مطابق حضرت عمرؓ پر کوئی اعتراض نہیں آتا۔
مقلدین اس میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد دوسری صورت ہے اور وہ بھی مطلقاً (ہرحال میں) مراد نہیں بلکہ دوسری صورت کی بھی وہ صورت مراد ہے جس میں طلاق دینے والے کی مراد تو ایک طلاق دینا ہی تھی لیکن اس نے کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے تاکید کی نیت سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی طلاق کے الفاظ کہہ دیے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ دلوں کے حال کو بھی جاننے والی ہے اس لیے آج بھی اگر کسی نے سچ مچ دوسری اور تیسری دفعہ کے الفاظ سے تاکید کی نیت کرلی ہو تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی نیت کا اعتبار ہوگا اور عنداللہ دوسری اور تیسری طلاق واقع نہ ہوگی لیکن یہی معاملہ اگر عدالت میں چلا جائے تو عدالت چونکہ دلوں کے حال کو نہیں جانتی اس لیے وہ ظاہر حال کے پیش نظر فیصلہ کرتی ہے۔
آپﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے دور میں اور اسی طرح حضرت عمرؓ کے ابتدائی دور میں لوگوں میں دین داری کا غلبہ تھا اس لیے ان زمانوں کے لوگ عام طور سے ظاہر میں بھی وہی کہتے تھے جو دلوں میں ہوتا تھا اس لیے عدالت ان کی بات کا اعتبار کرلیتی تھی اور دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں کرتی تھی لیکن جیسے جیسے لوگوں کی دین داری میں فرق آنے لگا اور حضرت عمرؓ نے خدا داد فراست سے یہ بھانپ لیا کہ لوگ تاکید کی نیت نہ ہونے کے باوجود بھی جھوٹ موٹ تاکید کی نیت کرنے لگ پڑے ہیں یا آئندہ کرنے لگ پڑیں گے تو انہوں نے عدالتی طور پر یہ حکم صادر فرمادیا کہ اب عدالت لوگوں کے تاکید کے دعوے کا اعتبار نہیں کرے گی اور دوسری اور تیسری مرتبہ کہے گئے الفاظ سے بھی طلاق ہی سمجھے گی۔ اور عدالت والا یہی حکم عورت (بیوی) کے لیے ہے کیونکہ وہ بھی دل کے حال کو نہیں جانتی اس لیے وہ بھی ظاہر حال کا اعتبار کرتے ہوئے دوسری اور تیسری مرتبہ کہے گئے الفاظ سے بھی طلاق ہی سمجھے گی۔
فقہ حنفی کی کتابوں میں آج بھی مسئلہ اسی طرح لکھا ہوا ہے جس طرح اوپر بیان ہوا ۔مقلدین کی مذکورہ بالا تاویل نہ تو کسی حدیث کے مخالف ہے اور نہ کسی صحابیؓ کے فتوے کے خلاف ہے اور نہ ہی اس تاویل کے پیش نظر حضرت عمرؓ پر کوئی اعتراض آتا ہے اور یہی جمہور صحابہ کرامؓ کے تابعینؒ، تبع تابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ کا مؤقف ہے۔
مسلم شریف (2/962 حدیث نمبر 1471 ط بشری ) میں ہے:
عن نافع ….. قال: فكان ابن عمر إذا سئل عن الرجل يطلق امرأته وهي حائض يقول: أما أنت طلقتها واحدة أو اثنتين، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره أن يرجعها، ثم يمهلها حتى تحيض حيضة أخرى، ثم يمهلها حتى تطهر، ثم يطلقها قبل أن يمسها، وأما أنت طلقتها ثلاثا، فقد عصيت ربك فيما أمرك به من طلاق امرأتك، وبانت منك .
’’نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے ……حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے (اکٹھی تین طلاقیں دینے والے سے کہا ) تم نے اپنی بیوی کو (اکٹھی )تین طلاقیں دی ہیں تو بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں جو تمہارے رب کا حکم (بتایا ہوا طریقہ) ہے اس میں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔‘‘
ابو داؤد شریف(1/666 ،حدیث نمبر 2197 ط بشری) میں ہے:
عن مجاهد قال: كنت عند ابن عباس رضي الله عنهما فجاءه رجل فقال: انه طلق امراته ثلاثا. قال: فسكت حتى ظننت انه رادها اليه. ثم قال: ينطلق احدكم فيركب الحموقة ثم يقول يا ابن عباس يا ابن عباس وان الله قال (ومن يتق الله يجعل له مخرجا ) وانك لم تتق الله فلا اجد لك مخرجا عصيت ربك وبانت منك امراتك
’’مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا کہ اس نے اپنی بیوی کو(اکٹھی) تین طلاقیں دے دی ہیں تو (کیا گنجائش ہے اس پر)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ اتنی دیر تک خاموش رہے کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ (حضرت عبداللہ بن عباسؓ کوئی صورت سوچ کر ) اسے اس کی بیوی واپس دلا دیں گے پھر انہوں نے فرمایا تم میں سے ایک شروع ہوتا ہے تو حماقت پر سوار ہو جاتا ہے اور (تین طلاقیں دے بیٹھتا ہے ) پھر آکر کہتا ہے اےابن عباس اےابن عباس (کوئی راہ نکالیئے کی دہائی دینے لگتا ہے ) حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے ومن یتق الله یجعل له مخرجا(جو کوئی اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی راہ نکالتے ہیں۔)‘‘
تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا (اور تم نے اکٹھی تین طلاقیں دے دیں جو کہ گناہ کی بات ہے) تو میں تمہارے لئے کوئی راہ نہیں پاتا (اکٹھی تین طلاقیں دے کر) تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔
سنن الدارقطنی(حدیث نمبر:3972)میں ہے:
عن سويد بن غفلة ، قال: كانت عائشة الخثعمية عند الحسن بن علي بن أبي طالب رضي الله عنه ، فلما أصيب علي وبويع الحسن بالخلافة ، قالت: لتهنك الخلافة يا أمير المؤمنين ، فقال: يقتل علي وتظهرين الشماتة، اذهبي فأنت طالق ثلاثا ، قال: فتلفعت نساجها وقعدت حتى انقضت عدتها وبعث إليها بعشرة آلاف متعة وبقية بقي لها من صداقها ، فقالت: متاع قليل من حبيب مفارق ، فلما بلغه قولها بكى وقال: لولا أني سمعت جدي ، أو حدثني أبي ، أنه سمع جدي يقول: «أيما رجل طلق امرأته ثلاثا مبهمة أو ثلاثا عند الإقراء لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره» لراجعتها
(یعنی حضرت حسنؓ نے جب اپنی بیوی کو اکھٹی تین طلاقیں دی اور اس کے بعد رجوع کا ارادہ ہوا تو آپؓ نے فرمایا:اگرمیں نے آپ ﷺ سے یہ بات نہ سنی ہوتی کہ :’’جو شخص اپنی بیوی کواکھٹی تین طلاقیں دےدےیاتین طہروں میں تین طلاقیں دےدےتو اس کے لیے وہ عورت حلال نہیں ہوتی تاوقتیکہ وہ عورت کسی اور مرد سے نکاح نہ کرلے‘‘تو میں اس سے رجوع کرلیتا)
مؤطا امام مالک(2/550)کتاب الطلاق،باب ماجاء فی البتہ،میں ہے:
حدثني يحيى، عن مالك أنه بلغه، أن رجلا قال لعبد الله بن عباس إني طلقت امرأتي مائة تطليقة فماذا ترى علي؟ فقال له ابن عباس «طلقت منك لثلاث، وسبع وتسعون اتخذت بها آيات الله هزوا.
مصنف عبد الرزاق (حدیث نمبر11353)میں ہے:
عن الثوري، عن عمرو بن مرة، عن سعيد بن جبير قال: جاء ابن عباس رجل فقال: طلقت امرأتي ألفا، فقال ابن عباس: «ثلاث تحرمها عليك، وبقيتها عليك وزرا. اتخذت آيات الله هزوا.
السنن الكبری للبیہقی( حدیث نمبر 14961)میں ہے:
عن حبيب بن أبي ثابت، عن بعض أصحابه قال: جاء رجل إلى علي رضي الله عنه فقال: طلقت امرأتي ألفا قال: ” ثلاث تحرمها عليك واقسم سائرها بين نسائك “.
فتح الباری(9/364)میں ہے:
الجواب الخامس دعوى أنه ورد في صورة خاصة فقال بن سريج وغيره يشبه أن يكون ورد في تكرير اللفظ كأن يقول أنت طالق أنت طالق أنت طالق وكانوا أولا على سلامة صدورهم يقبل منهم أنهم أرادوا التأكيد فلما كثر الناس في زمن عمر وكثر فيهم الخداع ونحوه مما يمنع قبول من ادعى التأكيد حمل عمر اللفظ على ظاهر التكرار فأمضاه عليهم وهذا الجواب ارتضاه القرطبي وقواه بقول عمر إن الناس استعجلوا في أمر كانت لهم فيه أناة وكذا قال النووي إن هذا أصح الأجوبة.
عمدۃ القاری (جلد1 صفحہ232 )میں ہے :
مذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم من الاوزاعي والنخعي والثوري و ابو حنيفه واصحابه ومالك واصحابه والشافعي واصحابه واحمد واصحابه و اسحاق وابو ثور وابو عبيدة واخرون كثيرون على ان من طلق امراته ثلاثا يقعن ولكنه ياثم
مرقاۃ المفاتيح شرح مشكاۃ المصابيح ( جلد6صفحہ436) میں ہے:
قال النووي اختلفوا في من قال لامراته انت طالق ثلاثا فقال مالك والشافعي واحمد وابو حنيفه والجمهور من السلف والخلف يقع ثلاثا…
وفيه أيضاً:وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاثا(6/437)
(یعنی جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ اور ان کے بعدکے تمام ائمہ کا مذہب یہی ہے کہ تین طلاقوں سے تین ہی واقع ہوتی ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved