- فتوی نمبر: 31-90
- تاریخ: 07 جولائی 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > اسلامی عقائد
استفتاء
محترم ومکرم مفتی صاحب زیدمجدکم العالی
گزارش ہے کہ آپ حضرات کی طرف سے جاری کردہ حضرت ڈاکٹرمفتی عبدالواحد صاحب نوراللہ مرقدہ کامرتب کردہ ایک سالہ ’’فہم دین کورس‘‘پڑھانے کی سعادت حاصل ہورہی ہے،الحمدللہ ! عوام توعوام ،خود میرےلیے بہت ہی مفیدسلسلہ ہے،اللہ تعالی اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔آمین
آمدم برسرمطلب یہ کہ دوران مطالعہ ودرس کچھ ایسی باتیں جو سمجھ نہیں آسکیں یاجن پراپنی ناقص عقل کی وجہ سے کچھ اشکال ساذہن میں آیاوہ سمجھنا یا حل کرناچاہ رہاہوں ،امید ہے کہ تشفی فرمادیں گے ،بعدازتحقیق جوبھی نتیجہ سامنے آئے اس سے بندہ کوبھی مطلع فرمادیں گے۔جزاکم اللہ خیرا
1۔اسلامی عقائد (باب:10،علامات قیامت ،ظہور مہدی،ص:156ط 2016نشریات اسلام )میں مذکور ہے:
’’امام مہدی کےزمانہ میں دجال نکلے گا،اورانہی کےزمانہ بادشاہت میں حضرت عیسی ٰ علیہ السلام آسمان سے دمشق کےشرقی منارہ پرعصرکی نماز کےقریب نازل ہوں گےاورامام مہدی کےپیچھے نماز ادافرمائیں گے‘‘۔
اس مذکورہ خط کشید عبارت کےبارہ میں گزارش ہے کہ اس موضوع پربندہ نے تقریباپانچ ،چھ سال قبل ایک تحقیقی مضمون لکھا تھا جس میں یہ ثابت کیاگیا تھا کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کاوقت راجح قول کے مطابق نماز فجر ہے ،نہ کہ نماز عصر ،بعدازاں اسی موضوع پرایک تحقیق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری صاحب ؒ کی بھی سامنے آئی ،مذکورہ دونوں تحریریں اس عریضے کےساتھ لف ہیں ،ملاحظہ فرماکر قول صواب سے متعلق راہنمائی فرمائیں۔اگر نماز فجر والاقول راجح سمجھیں تو آئندہ ایڈیشن کے حاشیہ میں اس کی تصریح کردی جائے ،تو مناسب ہوگا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کےنزول سے متعلق اکثر روایات میں اس کا تذکرہ ہے کہ آپ کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارے پر ہوگا تاہم ان روایات میں نماز ِ فجر یا صبح کے وقت کا تذکرہ نہیں ہے اور بعض روایات وہ ہیں جن میں نماز فجر یا صبح کے وقت کا تذکرہ تو ہے لیکن ان میں دمشق کی مسجد کے مشرقی مینارے پر اترنے کا ذکر نہیں ہے( جیسا کہ مولانا یونس جون پوری ؒ کے مضمون میں نماز فجر سے متعلق ذکر کردہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کسی روایت میں مشرقی مینارے کا ذکر نہیں ) بلکہ ان میں سے حضرت ابوا مامہؓ کی روایت میں یہ ہے کہ اس وقت اکثر لوگ بیت المقدس میں ہوں گے البتہ حضرت نافع بن کیسانؓ کی روایت میں ہے کہ یہ نزول دمشق میں ہوگا اور سفید مینارے پر ہوگا اور چھ گھڑیوں کے وقت ہوگا۔ حضرت ابوامامہؓ کی روایت مقام ِ نزول کے اعتبار سے ان روایات کے مخالف ہے جن میں مقام نزول دمشق کی مسجد کا مینارہ بتایا گیا ہے اور حضرت نافع بن کیسانؓ کی روایت وقت ِنزول کے اعتبار سے ان روایات کے مخالف ہے جن میں وقت ِ نزول نماز ِ فجر بتایا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ان روایات میں مقام اور وقت كے اعتبار سے تعارض ہے ۔ اس لیے بعض حضرات نے ترجیح کا راستہ اختیار کیا اور حضرت ابوامامہؓ کی روایت کو غیر محفوظ اور حضرت نافع بن کیسانؓ کی روایت کو منکر کہا جیساکہ ابن کثیرؒ نے کیا اور بعض نے ان میں تطبیق کا راستہ اختیار کیا اور کہا کہ نزول تو دمشق کی مسجد کے مشرقی مینارے پر ہوگا جو دن کی چھ گھڑیوں کے وقت ہوگا اور جب حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام مسلمانوں کی مدد کے لیے بیت المقدس جائیں گے تو اس وقت فجر کا وقت ہوگا جیساکہ ابن عربیؒ نے کیا اور اور تطبیق کی صورت میں حضرت ابوامامہؓ کی حدیث کو غیر محفوظ اور حضرت نافع بن کیسانؓ کی حدیث کو منکر کہنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ نیز حضرت نافع بن کیسان ؓ کی روایت سے مولانا یونس جون پوری ؒ کی اس بات کا بھی جواب ہو جاتا ہے کہ اس جمع کی تو اس وقت ضرورت تھی جب کسی روایت میں نزول عند صلاة العصر مل جاتا کیونکہ حضرت نافع بن کیسان ؓ کی روایت میں اگرچہ عند صلاة العصر کا لفظ نہیں لیکن لست ساعات من النهار کا لفظ تو ہے اور اس لفظ کے ہوتے ہوئے بھی تطبیق یا ترجیح کی ضرورت باقی رہتی ہے لہذا ہمارے خیال میں تطبیق والی صورت درست ہے اور ” اسلامی عقائد ” کے آئندہ کے ایڈیشن میں تبدیلی یا حاشیے میں اس کی تصریح کی ضرورت نہیں۔
نوٹ : چھ گھڑیوں کا وقت تقریبا ظہر اور عصر کے درمیان کا وقت بنتا ہے اور چونکہ نزول کے بعد جو پہلی نماز ہوگی وہ عصر کی ہوگی اس لیے بعض اہل علم نے نزول کو ہی عصر کے وقت یا عصر کے قریب کہہ دیا۔
سنن ابن ماجہ (رقم الحدیث 4077)میں ہے :
عن أبي أمامة الباهلي قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان أكثر خطبته حديثا، حدثناه عن الدجال، وحذرناه …………… فقالت أم شريك بنت أبي العكر: يا رسول الله! فأين العرب يومئذ؟ قال: “هم يومئذ قليل، وجلهم ببيت المقدس، وإمامهم رجل صالح، فبينما إمامهم قد تقدم يصلي بهم الصبح، إذ نزل عليهم عيسى ابن مريم الصبح، فرجع ذلك الإمام ينكص يمشي القهقرى، ليتقدم عيسى يصلي بالناس، فيضع عيسى يده بين كتفيه ثم يقول له: تقدم فصل، فإنها لك أقيمت، فيصلي بهم إمامهم …..
أشراط الساعۃ وذہاب الأخيار وبقاء الأشرار لعبد الملك بن حبيب القرطبی(م 238ھ) (4/ 140) میں ہے:
عن عبد الرحمن بن أيوب بن نافع بن كيسان عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ينزل عيسى بن مريم عليه السلام عند باب دمشق الشرقي عند المنارة البيضاء لست ساعات إلى الدجال في ثوبين دمشقيين كأنما ينحدر من رأسه حب الجمان.
تاريخ دمشق لابی القاسم ابن عساكر (م571ھ)(34/ 236) میں ہے :
«عن عبد الرحمن بن أيوب بن نافع بن كيسان عن أبيه عن جده نافع بن كيسان صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ينزل عيسى بن مريم عند باب دمشق قال نافع ولا أدري أي بابها يومئذ قال عند المنارة البيضاء لست ساعات من النهار في ثوبين ممشقين كأنما يتحدر من رأسه اللؤلؤ»
البدایۃ و النہایۃ (19/ 219 ط التركی) میں ہے :
قد تقدم في حديث النواس بن سمعان عند مسلم «أن عيسى ينزل على المنارة البيضاء شرقي دمشق» . وفي غير رواية مسلم: «أنه ينزل على المنارة البيضاء الشرقية بدمشق» . وهذا أشبه، فإن في سياق الحديث ” «فينزل وقد أقيمت الصلاة للصبح فيقول له إمام المسلمين: تقدم يا روح الله. فيقول: لا، إنها إنما أقيمت لك» ” ففيه من الدلالة الظاهرة أنه ينزل على منارة المعبد الأعظم الذي يكون فيه إمام المسلمين إذ ذاك، وإمام المسلمين يومئذ هو المهدي فيما قيل، وهو جامع دمشق الأكبر. والله أعلم.
وقد تقدم في حديث أبي أمامة أنه ينزل في غير دمشق، وليس ذلك بمحفوظ.
وكذا الحديث الذي ساقه ابن عساكر في ” تاريخه ” من طريق محمد بن عائذ، ثنا الوليد، ثنا من سمع عبد الرحمن بن ربيعة، يحدث عن عبد الرحمن بن أيوب بن نافع بن كيسان، عن جده نافع بن كيسان صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” «ينزل عيسى ابن مريم عند باب دمشق – قال نافع: ولا أدري أي بابها يريد – عند المنارة البيضاء لست ساعات من النهار في ثوبين ممشقين، كأنما يتحدر من رأسه اللؤلؤ» ” ففيه مبهم لم يسم، وهو منكر; إذ هو مخالف لما ثبت في الصحاح من أن نزوله وقت السحر عند إضاءة الفجر وقدأقيمت الصلاة، والله أعلم
الاشاعۃ للبرزنجی (ص206 )میں ہے :
طريق الجمع بين هذه الروايات أن عيسى صلوات الله عليه ينزل أولا بدمشق على المنارة البيضاء وهي موجودة اليوم لست ساعات من النهار، وقد مر عن “الفتوحات” أنه يصلي بالناس صلاة العصر، فيحتمل أنه ينزل بعد الظهر، ثم مع اشتغاله بالقرعة بين اليهود والنصارى يدخل وقت العصر، فيصلي بهم العصر؛ كما في رواية، ثم يأتي إلى بيت المقدس غوثا للمسلمين، ويلحقهم في صلاة الصبح وقد أحرم المهدي والناس كلهم، أو بعضهم لم يحرموا، فيخرج إليه بعض من لم يحرم بالصلاة فيأتي والمهدي في الصلاة، فيتقهقر ويقول لعيسى عليه السلام بعض الناس: تقدم لما رأى تقهقر المهدي، فيضع يده على كتف المهدي أن تقدم انتهى.
فتاوی شامی (1/ 284) میں ہے :
«قوله بالساعات) وهي اثنتان وسبعون ساعة، والفلكية هي التي كل ساعة منها خمس عشرة درجة وتسمى المعتدلة أيضا. واحترز به عن الساعات اللغوية، ومعناها الزمان القليل، وعن الساعات الزمانية وتسمى المعوجة وهي التي كل ساعة منها جزء من اثني عشر جزءا من اليوم الذي هو طلوع الشمس إلى غروبها، أو الليل الذي هو غروب الشمس إلى طلوعها، فتارة تساوي الفلكية كما في يومي الحمل والميزان، وتارة تزيد عليها كما في البروج الشمالية وليالي البروج الجنوبية، وتارة تنقص عنها كما في ليالي البروج الشمالية وأيام البروج الجنوبية»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved