- فتوی نمبر: 31-166
- تاریخ: 05 اگست 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > اسلامی عقائد
استفتاء
السلام علیکم ! براہ مہربانی یہ بتادیں کہ اگر میں ایک نیک عمل ( عمرہ، حج ،روزہ، وغیرہ) کروں اور اُس کا اجر کسی فوت ہوئے یازندہ انسان کو بخش دوں تو اس نیک عمل یا کام کا اجر صرف اُس فوت ہونے والے یا زندہ کو ملے گا یا برابر کا اجر مجھے ( عمل کرنے والے کو) بھی ملے گا؟ مجھے اس کی دلیل چاہیے کہ اگر بر ابر کا اجر مجھے ( عمل کرنے والے کو) بھی ملے گا تو قرآن پاک یارب کریم کے کس حکم یا کس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے ؟ بہت بہت شکریہ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
کسی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دینے کے بعد عمل کرنے والے کے پاس سے ختم نہیں ہوتا ۔ یہ مضمون المعجم الأوسط للطبراني (رقم الحدیث 7726) میں مذکور ہے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نفلی صدقہ کرے تو اسے اپنے والدین کی طرف سے کردینے میں کوئی حرج نہیں ( ایسا کرنے سے ) ان دونوں کو بھی اس عمل کا اجر ملے گا اور اور اس عامل کے ثواب میں سے بھی کمی نہیں کی جائیگی ۔
المعجم الأوسط للطبراني (رقم الحدیث 7726)میں ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما على أحدكم إذا تصدق بصدقة تطوعا أن يجعلها عن أبويه، فيكون لهما أجرها، ولا ينقص من أجره شيء»
فتاوی شامی (2/ 243)میں ہے :
«صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شيء اهـ هو مذهب أهل السنة والجماعة»
بوادر النوادر(ص 353) میں ہے :
اناسی ویں حکمتہ عطاء ثواب بموصل ثواب نیز
سوال : ایصال ثواب کی نسبت بعض وقت خدشہ گزرتا ہے کہ اگر عمل نیک کا ثواب دوسروں کی روح کو بخشا جاوے تو بخشنے والے کیلیے کیا نفع ہوا البتہ مردوں کو اس سے نفع پہنچتا ہے ۔ حضور اس خدشہ کو رفع فرمادیں تو فدوی کو اطمینا ن ہوجاویے گا ۔
الجواب : في شرح الصدور بتخریج الطبراني عن ابى عمر و قال قال رسول الله صلى الله عليه اذا تصدق احدكم صدقة تطوعا فيجعلها عن ابويه فيكون لهما اجرها ولا ينقص من أجرہ شیئا ۔ یہ حدیث نص ہے اس میں کہ ثواب بخش دینے سے بھی عامل کے پاس پورا ثواب رہتا ہے اور صحیح مسلم کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے من سن سنة حسنة فله اجرها واجر من عمل بها من غيران ينقص من أجره شیئا او كما قال وجہ تائید ظاہر ہے کہ دوسرے شخص کی طرف تعد یہ ثواب سے بھی عامل کا ثواب کم نہیں ہوتا اتنا فرق ہے کہ حدیث طبرانی میں تعدیہ بالقصد ہے اور حدیث مسلم میں بلا قصد سو یہ فرق حکم مقصود میں کچھ موثر نہیں اور فقہار نے بھی ان روایات کے مدلول کو بلاتا ویل تلقی بالقبول کیا ہے کما فی رد المختار عن زكاةالتتار خانیۃ عن المحیط الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شي اھ اور راز اس میں احقر کے ذوق میں یہ ہے کہ معانی میں تو سع اس قدر ہے کہ تعدیہ الی المحل الآخر سے بھی محل اول سے ز دال نہیں ہوتا چنانچہ تعدیہ علوم و فیوض میں مشاہد ہے بخلاف اعیان کے کہ وہاں ایسا نہیں بلکہ ہبہ کرنے کے بعد شی موہوب واہب کے پاس نہیں رہتی وذكر العارف الرومي و المثنوي بعض اثار التوسع المعنوی فقال
در معانی قسمت و اعداد نیست در معانی تجزیہ و افراد نیست ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved