- فتوی نمبر: 33-384
- تاریخ: 17 اگست 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
یہ بات کہاں تک درست ہے کہ چار انبیاء اب بھی زندہ ہیں ،دو آسمانوں میں اور دو زمینوں میں ،آسمانوں میں حضرت عیسی و ادریس علیہما السلام اور زمین میں حضرت خضر و الیاس علیہما السلام ؟ برائے مہربانی اس بارے میں دلیل کے ساتھ تحقیقی جواب سے آگاہ کیجئے گا اور اگر اس بارے میں کوئی اختلاف ہو تو اس کو ذکر کرنا بھی نہ بھولیے گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
حضرت عیسیٰؑ کا آسمانوں پر زندہ ہونا مضبوط دلائل سے ثابت ہے اور باقی انبیاء علیہم وعلی نبینا الصلوۃوالسلام کا زندہ ہونا معتبر روایات سے ثابت نہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وما قتلوه يقينا بل رفعه الله إليه وكان الله عزيرا حكيما [سورة النساء، آيت:157]
وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته [سورة النساء، آيت:159]
تفسیر ابن کثیر (2/454) میں ہے:
وأولى هذه الأقوال بالصحة القول الأول، وهو أنه لا يبقى أحد من أهل الكتاب بعد نزول عيسى، عليه السلام، إلا آمن به قبل موته، أي قبل موت عيسى عليه السلام.
صحیح بخاری (رقم الحدیث:3448) میں ہے:
عن ابن شهاب أن سعيد بن المسيب سمع أبا هريرة رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «والذي نفسي بيده ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد حتى تكون السجدة الواحدة خيرا من الدنيا وما فيها ثم يقول أبو هريرة واقرءوا إن شئتم {وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا}.
التلخیص الحبیر (ص: 319) میں ہے:
وأما رفع عيسى فاتفق أصحاب الأخبار والتفسير على أنه رفع ببدنه حيا
البدایہ والنہایہ میں ہے:
وقال مكحول عن كعب أربعة أنبياء أحياء، اثنان في الأرض: إلياس والخضر، واثنان في السماء: إدريس وعيسى. وقد قدمنا قول من ذكر أن إلياس والخضر يجتمعان في كل عام في شهر رمضان ببيت المقدس، وأنهما يحجان كل سنة، ويشربان من زمزم شربة تكفيهما إلى مثلها من العام المقبل. وأوردنا الحديث الذي فيه أنهما يجتمعان بعرفات كل سنة، وبينا أنه لم يصح شيء من ذلك، وأن الذي يقوم عليه الدليل: أن الخضر مات، وكذلك إلياس، عليهما السلام. وما ذكره وهب بن منبه، وغيره; أنه لما دعا ربه، عز وجل، أن يقبضه إليه لما كذبوه، وآذوه، فجاءته دابة لونها لون النار فركبها، وجعل الله له ريشا، وألبسه النور، وقطع عنه لذة المطعم والمشرب، وصار ملكيا بشريا، سماويا أرضيا، وأوصى إلى اليسع بن أخطوب، ففي هذا نظر، وهو من الإسرائيليات، التي لا تصدق ولا تكذب، بل الظاهر أن صحتها بعيدة
معارف القرآن( 7/472 )میں ہے:
مؤرخین اور مفسرین کے درمیان یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پا چکے؟ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی رحمہ اللہ کے حوالے سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح زندہ ہیں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی ابن عساکرؒ سے اور حاکمؒ وغیرہ کے حوالے سے کئی روایات ایسی نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں کعب الاحبار رحمہ اللّٰہ سے منقول ہے کہ چار انبیاء علیہم السلام اب تک زندہ ہیں دو زمین میں حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہما السلام اور دو آسمانوں میں حضرت عیسی اور حضرت ادریس علیہما السلام یہاں تک کہ بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہ السلام ہر سال رمضان کے مہینے میں بیت المقدس میں جمع ہوتے ہیں اور روزے رکھتے ہیں لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا اور وہ ان جیسی روایتوں کے بارے میں لکھتے ہیں: وهو من الاسرائيليات التي لا تصدق ولاتكذب بل الظاهر ان صحتها بعيدة.
یہ ان اسرائیلی روایتوں میں سے ہیں جن کی نہ تصدیق کی جاتی ہےنہ تکذیب بلکہ ظاہر یہ ہے کہ ان کی صحت بعید ہے۔نیز فرماتے ہیں:ابن عساکرؒ نے کئی روایتیں ان لوگوں کی نقل کی ہیں جو حضرت الیاس علیہ السلام سے ملے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی قابل اطمینان نہیں یا تو اس لیے کہ ان کی سند ضعیف ہے یا اس لیے کہ جن اشخاص کی طرف یہ واقعات منسوب کیے گئے ہیں وہ مجہول ہیں۔(البدایہ والنہایہ 1/338)
ظاہر یہی ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کا رفع آسمانی کا نظریہ اسرائیلی روایات سے ماخوذ ہے بائبل میں لکھا ہے کہ: “اور وہ اگے چلتے اور باتیں کرتے جاتے تھے کہ دیکھو ایک آتشی رتھ اور آتشی گھوڑوں نے ان دونوں کو جدا کر دیا اور ایلیاہ بگو لےمیں آسمان پر چلا گیا۔”
اسی وجہ سے یہودیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا تھا کہ حضرت الیاس علیہ السلام دوبارہ زمین پہ تشریف لائیں گے چنانچہ جب حضرت یحیی علیہ السلام مبعوث ہوئے تو انہوں نے ان پر الیاس علیہ السلام ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔انجیل یوحنا میں ہے:انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟کیا تو ایلیاہ ہے؟اس نے کہا میں نہیں ہوں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبارؒ اور وہب ابن منبہ ؒجیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی جن سے حضرت الیاس علیہ السلام کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں بھی پھیل گیا ورنہ قرآن یا حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے حضرت الیاس علیہ السلام کی زندگی یا آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو صرف ایک روایت مستدرک حاکم میں ملتی ہے جس میں مذکور ہے کہ تبوک کے راستے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت الیاس علیہ السلام سے ہوئی لیکن یہ روایت بتصریح محدثین موضوع ہے حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بل هو موضوع قبح الله من وضعه وما كنت أحسب ولا أجوز ان الجهل يبلغ بالحاكم إلى ان يصحه هذا
“بلکہ یہ حدیث موضوع ہے خدا برا کرے اس شخص کا جس نے یہ حدیث وضع کی اس سے پہلے میرے گمان میں بھی نہ تھا کہ امام حاکم رحمہ اللہ بے خبری میں اس حد تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو صحیح قرار دیں”
خلاصہ یہ ہے کہ حضرت الیاس علیہ السلام کا زندہ ہونا کسی معتبر اسلامی روایت سے ثابت نہیں ہے۔
معارف القرآن( 6/41 )میں ہے:
ورفعناه مكانا عليا: یعنی ہم نے ادریس علیہ السلام کو مقام بلند پر اٹھا لیا معنی یہ ہے کہ ان کو نبوت اور رسالت اور قرب الہٰی کا خاص مقام عطا کیا گیا اور بعض روایات میں جو ان کا آسمان پر اٹھایا جانا منقول ہے اس کے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا یہ کعب احبار رحمہ اللّٰہ کی اسرائیلیات میں سے ہے اور ان میں سے بعض میں نکارت اور اجنبیت ہے اور قرآن کریم کے الفاظ مذکورہ معاملہ میں صریح نہیں کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے ان کا رفع الی السماء قطعی نہیں۔
معارف القرآن( 5/613) میں ہے :
ابو حیان نے تفسیر بحر محیط میں متعدد بزرگوں کے واقعات حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کے بھی نقل کیے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے:” والجمهور على انه مات ” جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ خضر علیہ السلام کی وفات ہو گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved