• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضرت امیر معاویہؓ کا حضرت سعد ؓ کو حضرت علیؓ کے متعلق برا بھلا کہنے والی روایت کی تحقیق

استفتاء

سعد بن ابی وقاص اپنے باپ سے روایت کرتے  ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ نے حضرت سعدؓ  کو امیر بنایا اور ان سے فرمایا تجھے ابو التراب  علیؓ  کو برا بھلا کہنے سے کس چیز نے منع کیا ہے، حضرت سعد نے کہا مجھے تین باتیں یاد ہیں کہ جو رسول اللہﷺ  نے مجھ سے فرمائی ہیں جن کی وجہ سے میں ان کو برا بھلا نہیں کہتا ۔اگر ان تین باتوں میں سے کوئی ایک بھی مجھے حاصل ہو جائے تو وہ میرے لئے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ پیاری ہے، میں نے  رسول اللہ ﷺ سے سنا اور آپ نے کسی غزوہ میں جاتے ہوئے ان کو اپنے پیچھے مدینہ منورہ میں چھوڑا تو حضرت علیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے ساتھ چھوڑے جا رہے ہیں ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا اے علی ) ! کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہارا مقام میرے ہاں اس طرح ہے جس طرح کہ حضرت ہارونؑ  کا مقام حضرت موسیٰؑ  کے ہاں تھا، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور میں نے آپ سے سنا، آپ خیبر کے دن فرما رہے تھے کہ کل میں ایک ایسے آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتا ہوگا۔

راوی کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم اس انتظار میں رہے کہ ایسا خوش نصیب کون ہوگا ؟  تو آپﷺ  نے فرمایا میرے پاس حضرت علیؓ کو بلاؤ ان کو بلایا گیا تو ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں تو آپ ﷺ  نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں پر لگایا اور عَلَم ان کو عطا فرما دیا، تو اللہ تعالی نے حضرت علی کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی اور یہ آیت مبارکہ نازل ہوئیں :فَقُلْ تَعَالُوا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِساءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأنفُسَكُم آل عمران: (61) تو رسول الله  ﷺ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلایا اور فرمایا اے اللہ ! یہ سب میرے اہل بیت (گھر والے) ہیں۔

1۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟

2۔  اگر صحیح ہے تو پھر اس کا دفاع ہم کیسے کریں کیونکہ میرا ایک دوست اہل تشیع ہے اس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو گالی دینے کے لیے یہ حدیث بیان کی تو یہ دیکھ کر مجھ سے بھی کوئی جواب نہیں دیا جا سکا اور مجھے خود بھی کچھ شک ہونے لگا اس کی وضاحت فرما دیں۔

وضاحت مطلوب ہے: آپ کو اس حدیث میں کیا اشکال ہے؟ واضح کریں۔

جواب وضاحت : اس حدیث میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ حدیث سنداً  صحیح ہے۔

2۔ اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو گالی دینے کا حکم تو کہیں بھی نہیں،  لہذا یہ کہنا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو گالی دینے کا حکم دیا درست نہیں ہے۔ اس حدیث میں صرف اتنی بات ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے اس بات کی وجہ پوچھی کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کیوں نہیں کہتے جیسے دیگر بعض لوگ ان کو برا بھلا کہتے ہیں اس کی وجہ ان کے فضائل ہیں یا ان کا خوف ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟ تو انہوں نے وجہ بتا دی کہ ان کے فضائل کی وجہ سے میں ان کو برا بھلا نہیں کہتا  تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ان کے جواب سے مطمئن ہو گئے۔

صحیح مسلم (4/1871) میں ہے:

عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، قال: أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا فقال: ‌ما ‌منعك ‌أن ‌تسب أبا التراب؟ فقال: أما ما ذكرت ثلاثا قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه، لأن تكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول له، خلفه في بعض مغازيه، فقال له علي: يا رسول الله خلفتني مع النساء والصبيان؟ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى؟ إلا أنه لا نبوة بعدي» وسمعته يقول يوم خيبر «لأعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله» قال فتطاولنا لها فقال: «ادعوا لي عليا» فأتي به أرمد، فبصق في عينه ودفع الراية إليه، ففتح الله عليه، ولما نزلت هذه الآية: {فقل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم} [آل عمران: 61] دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا وفاطمة وحسنا وحسينا فقال: «اللهم هؤلاء أهلي

شرح النووی علی مسلم (15/175) میں ہے:

قوله (إن معاوية قال لسعد بن أبي وقاص ما منعك أن تسب أبا تراب) قال العلماء الأحاديث الواردة التي في ظاهرها ‌دخل ‌على ‌صحابي يجب تأويلها قالوا ولا يقع في روايات الثقات إلا ما يمكن تأويله فقول معاوية هذا ليس فيه تصريح بأنه أمر سعدا بسبه وإنما سأله عن السبب المانع له من السب كأنه يقول هل امتنعت تورعا أو خوفا أو غير ذلك فإن كان تورعا وإجلالا له عن السب فأنت مصيب محسن وإن كان غير ذلك فله جواب آخر ولعل سعدا قد كان في طائفة يسبون فلم يسب معهم وعجز عن الإنكار وأنكر عليهم فسأله هذا السؤال قالوا ويحتمل تأويلا آخر أن معناه ما منعك أن تخطئه في رأيه واجتهاده وتظهر للناس حسن رأينا واجتهادنا وأنه أخطأ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved