• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایصال ثواب کے لئےقرآن  و یٰسین  پڑھنے اور اس کے بعد کھانےکا حکم

استفتاء

ہمارے مدرسے میں قاری صاحب کو لوگ ختم قرآن یا یٰسین شریف  کے ختم کے لئے پیسے دے دیتے ہیں اورقاری صاحب اس پیسے سے گھر پر کھانا بنواتے ہیں پھر سب لڑکوں سے کہتے ہیں کہ ایک بار سورۃ یٰسین پڑھو یا یہ والا سپارہ پڑھو اور بعد پڑھ چکنے کے دعا اور پھر شاگردوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس معاملہ میں چند باتوں کی رہنمائی درکار ہے:

1) اگر یہ ختم کسی مرنے والےکے ایصال ثواب کے لئے ہے تو مدرسے میں موجود شاگردوں کا اجتماعی یسین پڑھ کر ایصال ثواب کرنا بدعت نہیں ہے کیا؟

2) کیا تلاوت کر کے پھر اس پر کھانا کھانا  عبادت پر اجرت نہیں؟ اگرہےتو کیا یہ کھانا کھانا یا ختم کرنا جائز ہے؟

یہ میرا اپنا سوال ہے اور ہمارے اپنے مدرسے میں ایسا ہوتا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بدعت نہ ہو اور میں خوامخواہ گناہگار ہو جاؤں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1) ایصال ثواب کے لئے جمع ہو کر قرآن پڑھنا اور اس کے بعد دعا کا طریقہ ثابت نہیں ہے۔ انفرادی طور پر کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

2) ایصال ثواب کے لئے قرآن پڑھنے کے بعد  کھانا قرآن پڑھنے کی اجرت ہے جو جائز نہیں۔

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنازۃ (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر 3صفحہ نمبر 175) میں ہے

"وفي البزازية : ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم ، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره وفيها من كتاب الاستحسان : وإن اتخذ طعاما للفقراء كان حسنا وأطال في ذلك في المعراج وقال : وهذه الأفعال كلها للسمعة والرياء فيحترز عنها لأنهم لا يريدون بها وجه الله تعالى”

احسن الفتاوی، باب رد البدعات (طبع:  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، جلد نمبر1 صفحہ نمبر 361)میں ہے

"سوال: قرآن خوانی کے بعد لوگوں کو کھانا کھلا دیا جائے تو کیا اجرت میں داخل ہو کر ممنوع قرار دیا جائے گا؟

الجواب: اول تو مروج قرآن خوانی ہی ایک رسم محض بن کر رہ گئی ہے۔ اگر ایصال ثواب مقصود ہے تو اس کے لئے ہر شخص اپنے اپنے مقام پر تلاوت کر سکتا ہے اجتماع کی کیا ضرورت ہے۔ ثانیا اگر یہ قرآن خوانی ایصال ثواب کے لئے ہو تو اس کی اجرت ممنوع ہے اور کھانا کھلانے کا جہاں دستور ہو وہ بھی اجرت میں شمار ہو گا۔ نیز ایصال ثواب کے لئے دعوت بذات خود بدعت اور ناجائز ہے”

احسن الفتاوی، کتاب الاجارہ (طبع:  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی، جلد نمبر 7صفحہ نمبر 296)پر ہے

"آج کل عام دستور ہے کہ لوگ اپنے اعزہ کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کراتے ہیں اور پڑھنے والوں کو پیسے دیتے ہیں، کبھی تو پہلے سے روپے طے ہوتے ہیں اور کبھی صاحب خانہ طے کئے بغیر اپنی مرضی سے دے دیتا ہے، اور کبھی صرف کھانا یا چائےوغیرہ پیش کرتا ہے، کیا شرعا جائز ہے؟ نیز مروجہ قرآن خوانی کی کیا حیثیت ہے؟

الجواب: ایصال ثواب پر اجرت لینا دینا حرام ہے، بلا معاوضہ جائز ہے خواہ زبانی عبادت سےہو یا  بدنی سے یا مالی سے ،ہر قسم کی عبادت کا ثواب میت کو پہنچایا جا سکتا ہے مگر اس کے لیے چند بنیادی اور اصولی شرائط ہیں، جب تک وہ نہ ہوں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔۔

۶۔ تلاوت قرآن یا کسی دوسری عبادت پر کسی قسم کا کوئی  معاوضہ  نہ دیا جائے۔

۷۔یہ عبادات دنوں، کیفیتوں  اور اقسام طعام کی تخصیص و قیود سے پاک ہوں۔۔۔۔۔۔

مروجہ قرآن خوانی میں مذکورہ شرائط کے فقدان کے علاوہ مندرجہ ذیل قباحتیں بھی ہیں :

۱۔ نقدی یا طعام وغیرہ کسی نہ کسی صورت میں اس کا معاوضہ دیا جاتا ہے جو حرام ہے۔۔۔الخ”

فتاوی محمودیہ، باب البدعات والرسوم  (طبع: جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر3 صفحہ نمبر 72) میں  ہے

"قرآن کریم پڑھ کر ثواب پہونچانا مفید ہے  ہرگز گناہ نہیں لیکن اس کے لئے یہ صورت اختیار کرنا کہ مجمع اکٹھا کیا جائے اور پڑھنے والوں کو کھانا کھلایا جائے یہ ثابت نہیں، یہ کھانا پڑھنے اور ختم کرنے کی اجرت کے درجہ میں آتا ہے جو کہ شرعا منع ہے۔۔۔الخ”

فتاوی محمودیہ، باب اھداء الثواب للمیت  (طبع: جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر9 صفحہ نمبر 235)میں  ہے

"۔۔۔قرآن پاک کی تلاوت اجرت پر کرنا خواہ زبان سے معاملہ طے کیا جائے یا مشہور معروف ہونے کی وجہ سے  ہی دل میں رہے بالکل ناجائز اور معصیت ہے اس سے میت کو ثواب نہیں پہنچے گا بلکہ پڑھنے والوں کو بھی ثواب نہیں ملتا اور جو اجرت دی جاتی ہے خواہ روپیہ کی شکل میں ہو یا شیرینی، کپڑا، غلہ،کھانا، قرآن شریف وغیرہ کی شکل میں اس کا لینا دینا حرام ہے”

فتاوی محمودیہ،باب الاستیجار علی الطاعات (طبع: جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر17 صفحہ نمبر 47) میں ہے

"سوال (۸۱۸۶):کسی شخص نے ایصال ثواب کے لئے قرآن پڑھا پھر اس پڑھنے والے کوللہ کچھ پیسہ دے دیا بلا مانگے تو یہ پیسہ لینا جائز ہے یا ناجائز  ؟

الجواب حامدا و مصلیا: اگر خالصا لوجہ اللہ قرآن شریف پڑھا اور اس کا ثواب پہنچایا، پڑھنے والے کے ذہن میں اس کا خیال نہیں تھا کہ یہاں سے کچھ ملے گا ،نہ پڑھانے والے کے ذہن میں یہ تصور تھا کہ اس پڑھنے والے کو کچھ دینا ہوگا،  نہ اس کا رواج ہے کہ پڑھنے والے کو کچھ دیا جاتا ہوں بلکہ بعد میں کچھ احسان پڑھنے والے کے ساتھ کر دیا، اگر یہ پیسہ نہ دیا جاتا تو پڑھنے والے کو کسی قسم کی گرانی نہ ہوتی تو یہ پیسہ لینا جائز ہے ورنہ ناجائز ہے۔۔۔الخ”

فتاوی محمودیہ،باب الاستئجار علی الطاعات   (طبع: جامعہ فاروقیہ کراچی، جلد نمبر23 صفحہ نمبر 392) میں  ہے

"الجواب حامدا و مصلیا:۔۔۔ مگر اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ قرآن خوانی طلبہ سے کرا کے جب ان کی دعوت کی جائے تو یہ معاوضہ کی صورت میں کی ہے، ایسی دعوت قبول کرنے سے مولوی صاحب  کواور  طلبہ کو سب کو ہی بچنا چاہیے۔۔۔ الخ”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved