- فتوی نمبر: 34-180
- تاریخ: 15 دسمبر 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > سیر و مناقب اور تاریخ
استفتاء
آپﷺ نے غا رحرا ءمیں کونسی عبادت کی تھی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپﷺ غار حراء میں کونسی عبادت کرتے تھے؟ اس کا ذکر صراحتاً کسی حدیث میں نہیں ملتا، تاہم اہل علم کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں۔جن میں صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ آپ ﷺ کو کشف و الہام سے جو بات محسوس ہوتی کہ یہ حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ السلام یاکسی اور نبی کی شریعت ہے ا س پر عمل کرتے تھے۔
فتاوی شامی (1/ 358) میں ہے:
ثم هل كان قبل البعثة متعبدا بشرع أحد؟ المختار عندنا لا، بل كان يعمل بما ظهر له من الكشف الصادق من شريعة إبراهيم وغيره. وصح تعبده في حراء بحر
قوله: (المختار عندنا لا) نسبه في التقرير الأكملي إلى محققي أصحابنا قال: لأنه عليه الصلاة والسلام قبل الرسالة في مقام النبوة لم يكن من أمة نبي قط إلخ، وعزاه في النهر أيضا إلى الجمهور واختار المحقق ابن الهمام في التحرير أنه كان متعبدا بما ثبت أنه شرع يعني لا على الخصوص وليس هو من قومهم
تقریر بخاری مصنفہ حضرت مولانا محمدزکریا کاندھلوی ؒ(1/84)میں ہے:
حضور اکرم ﷺ کی عبادت پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب ابھی تک نبوت ہی نہیں ملی تو عبادت کس چیز کی کیا کرتے تھے؟ اس کا جواب عام طور پر یہ دیا جاتا ہے کہ ملت ابراہیمی کے کچھ آثار اس وقت باقی تھے اور اس کو اختیار فرمارکھا تھا اور شعائر ابراہیمی کے مطابق ہی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس کا موید یہ ہے کہ بعض روایات میں یتحنث بالثاء المثلثہ کے بجائے یتحنف بالفاء واقع ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دین حنیفی یعنی ملت ابراہیمی کے مطابق عبادت کیا کرتے تھے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو خواب کے اندر طریقہ عبادت تعلیم کیا گیا تھا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ عبادت سے مقصود اللہ کا ذکر اور اس کے ساتھ تعلق کا پیدا کرنا ہے۔ ہر فطرت سلیمہ اس کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ کو ایک مانا جائے اور اس کی عبادت کی جائے اور بھلا حضور ﷺسے بڑھ کر کون سلیم الفطرت ہو سکتا ہے جب حضور اکرم ﷺ سب سے زائد سلیم الفطرت ہیں تو اس کے مقتضی پر کہ اقر ارر بو بیت ، وحدانیت اقدس ہے عمل کریں گے۔ اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ کا ارشاد یہ ہے کہ اگر چہ کسی کے پاس دعوت نہ پہنچی ہو لیکن پھر بھی اس کے لئے وحدانیت کا اعتراف ضروری ہے۔
مظاہر حق(5/342)میں ہے:
رسول اللہﷺ نبوت سے قبل کسی شریعت پر عمل پیرا تھے یا عقل سلیم سے جس کو اچھا جانتے وہ کرتے یا ہر شریعت کے اولی و افضل پر عمل پیرا تھے۔ اگر شریعت کے تابع تھے تو وہ کون سی شریعت تھی؟
مختار قول یہ ہے کہ شریعت ابراہیمی پر چلنے والے تھے اس کے لیے یہ دلالت بھی ہے کہ ایک روایت میں بجائے یتحنث کے یتحنف وارد ہوا ہے اور دین ابراہیم علیہ السلام کا لقب ملت حنیفی ہے۔ اور یہ ظاہر بات ہے اللہ تعالی کی طرف سے نور ہدایت آپ کے قلب منور میں ڈالا گیا تھا جس سے پروردگار کی پسندیدہ باتوں پر ہی چلنا تھا اور انہی کو عمل پر لانا تھا بغیر اس کے کہ کسی شریعت یاعقل پر چلیں۔
سیرت مصطفی مصنفہ مولانا ادریس کاندھلویؒ(1/455)میں ہے:
پس اس طرح آپ بھی غار حراء میں جا کر اعتکاف فرماتے اور کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے اور وہاں رہ کر اللہ کی عبادت اور بندگی کرتے کسی حدیث میں آپ کی عبادت کی کیفیت مذکور نہیں بعض علماء فرماتے ہیں کہ ذکر الہی اور مراقبہ اور تفکر اور تذکر یہ آپ کی عبادت تھی علاوہ از یں فساق و فجار مشرکین اور کفار سے علیحدہ رہنا یہ خود مستقل عبادت ہے آخر ہجرت جس کی مدح و ثنا سے سارا قرآن بھرا پڑا ہے وہ کیا ہے خدا اور رسول کے دشمنوں سے علیحدگی ہی کا تو نام ہے ) اور جب تو شہ ختم ہو جاتا تو گھر واپس آکر تو شہ لے جاتے اور عبادت میں مشغول ہو جاتے ۔ (زرقانی ص11ج 1)
والمختار عندنا انه كان يعمل بما ظهر له من الكشف الصادق من شريعة ابراهيم وغيره (كما في الدر المختار ص ١٦٣ ج ١) یعنی فقہاء حنفیہ کے نزدیک مختار قول یہ ہے کہ آپ کو کشف صادق اور الہام صیح سے جو ظاہر اور منکشف ہوتا کہ یہ امر حضرت ابراہیم اور کسی نبی کی شریعت سے ہے اس کے مطابق عمل فرماتے جیسا کہ بعض روایات میں بجائے فیتحنث کے فیتحنف کا لفظ آیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ابراہیم حنیف کے طریقہ پر چلتے تھے یہ لفظ اس کی تائید کرتا ہے کہ آپ ملت حنیفیہ کے مطابق اپنے کشف اور الہام سے عمل کرتے تھے۔
انعام الباری شرح صحیح بخاری مصنفہ مفتی تقی عثمانی صاحب(1/209)میں ہے:
جبکہ زیادہ تر شراح کا کہنا ہے کہ “تحنث” کا عبادت کے معنی میں استعمال معروف نہیں ہے، لہذا صحیح بات یہ ہے کہ یہ ثاء بدلی ہوئی ہے فاء سے یعنی اصل لفظ “یتحنف” یعنی بالفاء تھا ، اور کلام عرب میں “فاء” کو ثاء سے بدلنے کا رواج رہا ہے کہ بکثرت ایسے الفاظ جو” فاء” والے ہوتے ہیں ان کو ثاء سے تبدیل کر دیا جاتا ہے، لہذا یہاں بھی “ثاء ، فاء ” سے بدلی ہوئی ہے اور “تحنف” کے معنی ہیں دین حنیف کے مطابق عبادت کرنا اور دین حنیف سے مراد دین ابراہیمی ہے ۔
مذکورہ بالا تفصیل سے اس سوال کا جواب بھی نکل آتا ہے کہ جب تک حضور اکرم ﷺ پر وحی کا نزول شروع نہیں ہوا تھا اور احکام و شرائع نہیں آئے تھے تو آپ ﷺ عبادت کس طرح کرتے تھے؟ اس کا جواب یہاں سے مل جاتا ہے کہ آپ ﷺوہ عبادت دین ابراہیمی کے مطابق فرمایا کرتے تھے۔ اب اس کی تفصیل کیا ہے اور وہ کسی طرح ہوتی تھی ، یہ روایات میں موجود نہیں ہے۔ بس اتنا اجمالی طور پر معلوم ہو جانا کافی ہے کہ اس وقت تک جو عبادات دین ابراہیمی کے مطابق ثابت تھیں آپ ﷺوہ عبادات انجام دیا کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved