• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضرت معاویہؓ اور حضرت ابودرداءؓ سے متعلق ایک روایت کی تحقیق

استفتاء

“حضرت ابودرداءؓ  فرماتے ہیں  کہ کوئی مجھے معاویہ کے شر سے بچا لے، میں اسے رسول اللہ ﷺ کی حدیث پیش کرتا ہوں اور یہ میرے سامنے اپنی رائے رکھتا ہے، میں اس زمین پر ہرگز نہیں رہوں گا جہاں معاویہ ہوگا۔” (حوالہ: أخرجہ ابن عبدالبر فی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ، جلد 2، صفحہ 1210، رقم الحدیث 1349)

اس روایت کا مطلب و مفہوم وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ اس روایت سے پیدا ہونے والے شکوک وشبہات کا ازالہ ہو جائے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ روایت کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ خرید و فروخت میں اگر ایک طرف سونے یا چاندی کے سکے ( درہم یا دینار)ہوں اور دوسری طرف سونے یا چاندی کا برتن یا زیور ہو تو دونوں طرف کے سونے یا چاندی میں برابری ضروری ہے یا نہیں؟ تو اس بارے میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے یہ تھی کہ برابری ضروری نہیں اور جس حدیث میں برابری کو ضروری کہا گیا وہ سونے چاندی کے سکوں ( درہم یا دینار) کی سونے چاندی کے سکوں کے تبادلے کی صورت میں ہے جبکہ حضرت ابو درداء  رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے یہ تھی کہ ممانعت والی حدیث مطلق اور عام ہے یعنی اگر ایک طرف سونے چاندی کے برتن ہوں تو پھر بھی اس حدیث کی رو سے برابری ضروری ہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی رائے ظاہری طور پر حدیث کے خلاف تھی اس لیے حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ نے مذکورہ جملہ ارشاد فرمایا پھر جب اس واقعہ کی خبر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تک پہنچی تو حضرت عمر ؓ نے مزید واضح کر دیا کہ ممانعت والی حدیث برتن والی صورت کو بھی شامل ہے ۔

نوٹ :مذکورہ روایت میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان میں “معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے شر سے بچا لے” والے الفاظ نہیں ہیں چنانچہ مذکورہ پوری حدیث بمع ترجمہ کے درجہ  ذیل ہے:

أخبرنا مالك، أخبرنا زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، أو عن سليمان بن يسار أنه أخبره، أن معاوية بن أبي سفيان، ‌باع ‌سقاية من ورق، أو ذهب بأكثر من وزنها، فقال له أبو الدرداء: «سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذا إلا مثلا بمثل» ، قال له معاوية: ما نرى به بأسا، فقال له أبو الدرداء: من يعذرني[1] من معاوية، أخبره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ويخبرني عن رأيه، لا أساكنك بأرض أنت بها، قال: فقدم أبو الدرداء على عمر بن الخطاب، فأخبره، فكتب إلى معاوية أن لا يبيع ذلك إلا مثلا بمثل، أو وزنا بوزن

 ترجمہ:حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک سونے یا چاندی کا برتن اس سے زیادہ سونے یا چاندی کے عوض میں فروخت کیا تو حضرت ابو درداء  رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح  فروخت سے منع فرمایا مگر یہ کہ برابر سرابر فروخت کیا جائے تو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں تو حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کہ کون مجھے معذور سمجھے گا اور معاویہ کو ملامت کرے گا کیونکہ میں ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بتا رہا ہوں اور وہ مجھے اپنی رائے پیش کر رہے ہیں میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گا یعنی حضرت معاویہ کے ساتھ جس زمین میں بھی آپ ہوں گے پھر ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور سارا قصہ سنایا تو حضرت عمر نے حضرت معاویہ کو خط لکھ کر منع فرمایا کہ اس طرح کی بیع بغیر برابری کے نہ کرے۔

المنتقیٰ شرح المؤطا لابی الولید،ت:۴۷۴ (2/262) میں ہے:

وقول أبي الدرداء من يعذرني من معاوية أنا أخبره عن رسول الله  صلى الله عليه وسلم  ويخبرني عن رأيه أنكار منه على معاوية التعلق برأي ‌يخالف ‌النص ولم يحمل ذلك من معاوية على التأويل وإنما حمله منه على رد الحديث بالرأي إما؛ لأنه لم يرد بقوله عن مثل هذا إلا المصوغ بالمضروب وفيه نقل النهي فيمتنع التأويل والتخصيص وإما؛ لأنه حمل قول معاوية ما أرى بمثل هذا بأسا على تجويز التفاضل بين الذهبين في الجملة دون تفصيل.

وأما التأويل فلا خلاف في جوازه وفيما قاله أبو الدرداء تصريح بأن أخبار الآحاد مقدمة على القياس والرأي وقوله لا أساكنك بأرض أنت فيها مبالغة في الإنكار على معاوية

اوجز  المسالک (12/538) میں ہے:

فقال له معاوية (ما ارى بمثل هذا) اي البيع (باسا )اما لانه حمل النهي على المسبوک الذي به التعامل وقيم المتلفات او كان لا يری ربا الفضل كابن عباس

قال الباجي ما ذهب اليه معاوية من بيع السقايه باكثر من وزنها يحتمل ان يرى في ذلك ما راه ابن عباس من تجويز التفاضل نقد ويحتمل ان يكون لا يرى ذلك ولكنه جوز التفاضل بين المصوغ منه وغيره لمعنى الصياغه وقول ابي الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مثل هذا انكر عليه فعله من تجويز التفاضل في الذهب واحتاج الى الاحتياج بنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن مثل ذلك لان معاوية من اهل الاجتهاد والفقه فليس لابي الدرداء صرفه عن رايه الا بدليل وحجة وقد روى ابن ابي مليكه قيل لابن عباس هل لك في امير المؤمنين معاويه ما اوتر الا بواحده قال اصاب انه فقيه

 وقول معاوية ما أرى بمثل هذا بأسا يحتمل أن يرى القياس مقدما على اخبار الاحاد على ما روي عن مالك وذلك لما يجوز على الراوي من السهو فالغلط والصواب تقديم خبر الواحد العدل لان السهو والغلط يجوز فيه على الناظر المجتهد اكثر مما يجوز على الناقل الحافظ الفقيه ويحتمل أن يرى تقديم اخبار الاحاد الا انه حمل النهي على المضرب بالمضروب دون المصوغ بالمضرب وراى ان الصياغه معنى زائدا يجوز ان يكون عوضا للفضل على حسب ما يقول ابو حنيفه في من باع مائة دينار في قرطاس  بمائتي دينار ان ذلك جائز ويجعل القرطاس عوضا للمائه الاخرى.

قال الباجي انكار منه على معاوية التعلق براي يخالف النص ولم يحمل ذلك من معاوية على التاويل وانما حمله منه على رد الحديث بالراي اما لانه لم يرد بقوله عن مثل هذا الا المصوغ بالمضروب وفيه نقل النهي فيمتنع التاويل التخصيص واما لانه حمل قول معاويه ما اراه بمثل هذا باسا على تجويز التفاضل بين الذهبين في الجمله دون تفصيل

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

[1] (من يعذرني من معاوية) أى من يلومه على فعله ولا  يلومني عليه أو من يقوم  بعذرى إذا جازيته بصنعه ولا يلومني على ما أفعله به  أو من ينصرني يقال عذرته أى نصرته  (اوجز المسالك12/538)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved