- فتوی نمبر: 24-367
- تاریخ: 24 اپریل 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
کیسے پتہ چلے گا کہ زندگی میں جو پریشانیاں آتی ہیں وہ سزا ہے یا آزمائش؟اللہ پاک خفا ہیں یا امتحان لے رہے ہیں ؟کیونکہ حالات ٹھیک نہیں ہو رہےہیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جس پریشانی کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کی توفیق مل جائےاور اپنے گناہوں پر تنبہ ہوجائے اور دل مطمئن رہے تو یہ آزمائش کی نشانی ہے ۔اور جس پریشانی کے بعد ایسا نہ ہو بلکہ زبان پر ناشکری کے کلمات جاری ہوں اور گناہوں پر تنبہ بھی نہ ہو تو یہ سزا کی نشانی ہے۔
معارف القرآن (مفتی شفیع عثمانیؒ)(6/757)میں ہے:
مصائب کے وقت ابتلاء و امتحان یا سزا و عذاب میں فرق
مصائب و آفات کے ذریعہ جن لوگوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دی جاتی ہے اور جن نیک لوگوں کو رفع درجات یا کفارہ سیئات کے لئے بطور امتحان مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے، ظاہری صورت ابتلاء کی ایک ہی سی ہوتی ہے، ان دونوں میں فرق کیسے پہچانا جائے ؟ اس کی پہچان حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ لکھی ہے کہ جو نیک لوگ بطور ابتلاء و امتحان کے گرفتار مصائب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب کو مطمئن کر دیتے ہیں اور وہ ان مصائب و آفات پر ایسے ہی راضی ہوتے ہیں جیسے بیمار کڑوی دواء یا آپریشن پر باوجود تکلیف محسوس کرنے کے راضی ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے مال بھی خرچ کرتا ہے۔ سفارشیں مہیا کرتا ہے۔ بخلاف ان گنہگاروں کے جو بطور سزا مبتلا کئے جاتے ہیں ان کی پریشانی اور جزع و فزع کی حد نہیں رہتی، بعض اوقات ناشکری بلکہ کلمات کفر تک پہنچ جاتے ہیں ۔سیدی حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے ایک پہچان یہ بتلائی کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اپنے گناہوں پر تنبہ اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہو جائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ قہر نہیں بلکہ مہر اور عنایت ہے اور جس کو یہ صورت نہ بنے بلکہ جزع و فزع اور معاصی میں اور زیادہ انہماک بڑھ جائے وہ علامت قہر الہی اور عذاب کی ہے۔ واللہ اعلم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved