- فتوی نمبر: 12-265
- تاریخ: 16 اگست 2018
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات
استفتاء
1۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ ﷺ نے کبھی نوکری کی ہے یا نہیں ؟
2۔ اور اکثر میں نے سنا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’رزق کے دس حصوں میں سے نو (۹) حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ نوکری میں ہے۔‘‘ اس بات سے متعلق تھوڑی وضاحت فرما دیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ آپ ﷺ نے نبوت ملنے سے پہلے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں جو کہ نوکری ہی کی ایک صورت ہے اور تجارت بھی کی ہے۔ البتہ نبوت ملنے کے بعد نوکری کرنا یا باقاعدہ تجارت کرنا ثابت نہیں ۔
بخاری شریف (ص: 301) میں ہے:
عن ابی هریرة رضی الله عنه عن النبی ﷺ قال ما بعث الله نبیاً الا رعی الغنم فقال اصحابه و انت فقال نعم کنت ارعاها علی قراریط لاهل مکة۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس نے بکریاں چرائیں ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کہ کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں میں نے بھی اہل مکہ کے لیے کچھ قیراط کے بدلے میں بکریاں چرائی ہیں ۔
2۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ دس حصوں میں سے نو (۹) حصے رزق تجارت میں ہے، لیکن ’’ایک حصہ نوکری میں ہے‘‘ یہ درست نہیں ۔ بلکہ درست بات یہ ہے کہ ایک حصہ مویشیوں میں ہے۔ اور ’’ایک حصہ مویشیوں میں ہے‘‘ کی بات بھی خود آپ ﷺ سے منقول نہیں بلکہ یہ نعیم بن عبد الرحمن تابعی رحمہ اللہ کا قول ہے۔
چنانچہ اتحاف الخیرۃ المھرۃ (275/3) میں ہے:
2730: عن نعيم بن عبد الرحمن قال: بلغني ان رسول الله ﷺ قال: تسعة اعشار الرزق في التجارة، قال نعيم: العشر الباقي في السائمة يعني الغنم۔
علامہ عبد الروؤف المناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
3۔ نعيم بن عبد الرحمن تابعي ثقة من الطبقة الثالثة، و يحييٰ بن جابر الطائي مرسلاً هو قاضي حمص ثقة يرسل کثيراً و رجاله ثقات۔ (التيسير بشرح الجامع الصغير)۔ فقط و الله تعاليٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved