• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نماز میں اگر عورت کا ستر یابال نظر آنے نماز کاحکم

  • فتوی نمبر: 12-343
  • تاریخ: 08 ستمبر 2018

استفتاء

السلام علیکم ور حمۃ اللہ وبرکاتہ

۱۔ عورتوں کا نماز میں اگر ستر کھل جائے یا پھر سر کے بال نظر آنا شروع ہو جائیں اور پتہ نہ چلے اور نماز کے بعد معلوم ہو کہ ایسا معاملہ ہوا ہے تو کیا نماز ہو جاتی ہے؟

۲۔ کیا عورتوں کا نماز میں تشہد کی حالت میں پائوں کا رخ دائیں طرف اور پائوں کا انگوٹھا قبلہ رخ ہونا چائیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ جن اعضاء کا نماز میں چھپانا فرض ہے ان اعضاء میں سے کسی عضو کا چوتھائی یا اس سے زائد حصہ دوران نما ز تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار کھلارہے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے ۔لہذا اگر نمازمیں ستر یا سر کے بالوں کا چوتھائی حصہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہنے کی مقدار کھلا رہاہوتو نماز کا اعادہ ضروری ہے :

کما في الشامية(101,100/2)

(ويمنع)حتي انعقاد ها (کشف ربع عضو )قدر اداء رکن بلاصنعه (من )عورة(غليظة او خفيفة)قال العلامة الشامي ؒ قوله (قدراداء رکن)اي بسنته منية۔قال شارحها وذلک قدر ثلاث تسبيحات ۔اعضاء عورة الرجل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وفي الحرة هذة الثمانية ويزاد فيها ستة عشر۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ والراس والشعر الخ

۲۔ جی ہاںعور ت کے لیے تشہد کی حالت میںپائوں کا رخ دائیں طرف اور جہاں تک ہوسکے پائوں کی انگلیاں کا رخ قبلہ کی طرف کر نا چاہیے۔

چنانچہ بہشتی زیور (حصہ دوئم ،ص:17مکتبہ القدوس)میں ہے :

زمین پر پہلے گھٹنے رکھے ۔۔۔۔۔۔اور ہاتھ اور پائوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف رکھے مگر پائوں کھڑے نہ کرے بلکہ داہنی طرف کو نکال دے ۔

امداد الاحکام (ص:488-89)میں ہے۔

سوال:بہشتی زیور مدلل میں حصہ دوم کے صفحہ 24پر یہ عبارت سجدہ کے بیان میںلکھی گئی ہے:

’’ہاتھ پائوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف رکھے مگر پائوں کھڑے نہ کرے بلکہ داہنی طرف نکال دے اور خوب سمٹ کر‘‘

اور اس میں لفظ مگر نکالدے ‘‘تک عبارت بڑھائی گئی ہے اس عبارت کے بڑھانے سے احقر کے سمجھ میں یہ آیا ہے کہ سجد ہ میں عورت اپنے دونوں پیروں کو مثل تورک کے داہنی طرف نکال دے اور اسی طور سے سجدہ کرے مگر شامی میں ہے : وذکر فی البحر انھا لا تنصب اصابع القدمین اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیروں کو عور ت کھڑے رکھے اور انگلیوں کو زمین پر بچھائے رکھے اور اسی صورت میں انگلیوں کا قبلہ رخ ہونا ممکن ہے ورنہ نہیں۔اور عالمگیری میں ہے والمرأۃ لا تجافی ۔۔۔ویقعد علی رجلیھا ۔۔۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ عورت سجدہ کرتے وقت مردوں کی طرح پائوں پر بیٹھے تورک کے طور پر نہ بیٹھے۔

الجواب :فقہاء نے عورت کو انتصاب سے مستثنی کرکے اصابع الی القبلہ سے مستثنی نہیں کیا اور ترک انتصاب کے ساتھ توجیہ اصابع الی القبلہ کی وہی صورت ہے جو بہشتی زیور میں ہے اس کے سوا سجدہ میں توجیہ اصابع الی القبلہ کی عورت کے لیے کوئی صورت نہیں۔۔

التنقید علی الجواب الثانی: مشاہدہ میں کلام ہے احقر کا مشاہدہ یہ ہے کہ توجیہ اصابع الی القبلہ کی آسان صورت تورک ہی ہے اس کو محال یا متعذر کہناعجیب ہے منشاء اس دشواری یا استحالہ کا یہ ہے کہ مجیب ثانی کے ذہن میں تورک مع ضم الرجلین کی صورت نہیں وہ تورک تفریج الرجلین میں توجیہ اصابع کو دشوار دیکھ کر مطلق تورک میں اس کو دشوار سمجھے گا۔

۳۔            فتاوی شامی 259/2) میں ہے:

(وبعدفراغه من سجدتي الرکعة الثانية يفترش )الرجل (رجله اليسري )ويجلس عليها وينصب رجله اليمني ويوجه اصابعه )المنصوبة )نحو القبلة)وفي الشامية تحت قوله (في المنصوبة)۔۔۔وصرح بان المراد اليمني في المفتاح والخلاصة والخزانة فقوله في الدرر : رجليه بالتثنية فيه اشکال ۔۔۔۔لکن نقل القهستاني مثل مافي الدر عن الکافي والتحفة ثم قال فيوجه رجله اليسري الي اليمني واصابعها نحو القبلة بقدر الاستطاعة ۔قوله :(متورکة )بأن تخرج رجلها اليسري من الجانب الايمن ولا تجلس عليها بل علي الارض ۔

اس عبارت میں اگر چہ انگلیوں کے قبلہ کی طرف کرنے کا حکم صرف مردوں کے لیے بیان کیا گیا ہے لیکن چونکہ عورت کو اس حکم سے مستثنی نہیں کیا گیا لہذا عورت کے لیے بھی یہی حکم ہو گا کہ قعدہ کی حالت میں جس قدر ممکن ہو اپنی انگلیاں قبلہ کی طرف پھیرے ۔

۴۔            حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص:173)میں ہے:

وتجلس متورکة في کل قعود بان تجلس علي اليتها اليسري وتخرج کلتا رجليها من الجانب الايمن وتضع فخذيها علي بعضهما وتجعل الساق الايمن علي الساق الايسر کما في مجمع الانهر

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved