• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد میں موجود قرآن کے  زائد نسخے کسی دوسری مسجد یا مدرسے میں دینا یا گھروں میں دینا

استفتاء

ہماری مسجد میں کثیر تعداد میں قابل استعمال قرآنی نسخے  ہیں جن میں سے چند ایک کے علاوہ باقی سالہا سال استعمال نہیں ہوتے۔

1)  کیا ان کو کسی اور مسجد یا مدرسے میں منتقل کیا جا سکتا ہے؟

2) اور اگر گھروں میں ضرورت ہو تو لے جانا کیسا ہے؟

3)  نیز ناقابل استعمال نسخوں کو کس طرح سنبھالا جا سکتا ہے یعنی احسن طریقہ تجویز فرمائیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)  کیا جا سکتا ہے۔

2)  جائز نہیں ہے۔

3) بہترطریقہ یہ ہے کہ ناقابل استعمال نسخوں کا جتنا حصہ قابل استعمال ہے اسے استعمال میں لایا جائے اور جو حصہ نا قابل استعمال ہو گیا ہے اس کی جگہ نیا حصہ خرید کر جلد کر دیا جائے اور نا قابل استعمال اوراق کو کسی پاک کپڑے میں لپیٹ کرکسی محفوظ جگہ دفن کردیا جائے جہاں لوگوں کا یا جانوروں کا ان کے  اوپر سےگزر نہ ہو اور دفن کرنے کے لئے یا تو بغلی قبر بنائی جائے جس طرح انسان کو دفن کرنے کے لئے بنائی جاتی ہے یا مقدس اوراق پر کوئی تختہ وغیرہ لگا کر دفن کیا جائے تا کہ ان اوراق پر براہ راست مٹی نہ پڑےاور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ  ان اوراق کےساتھ کوئی وزنی چیز مثلاً اینٹ باندھ کر انہیں کسی ایسے بہتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جائے جوپاک صاف ہو اور گہرا ہوتاکہ یہ اوراق پانی کی تہہ میں بیٹھ جائیں ۔

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الوقف(طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر6 صفحہ نمبر559) میں ہے:"وإن وقف على المسجد جاز ويقرأ فيه، ولا يكون محصوراً على هذا المسجد، وبه عرف حكم نقل كتب الأوقاف من محالها للانتفاع بها والفقهاء بذلك مبتلون فإن وقفها على مستحقي وقفه لم يجز نقلها وإن على طلبة العلم وجعل مقرها في خزانته التي في مكان كذا ففي جواز النقل تردد نهرقال ابن عابدين: قوله  (ففي جواز النقل تردد ) الذي تحصل من كلامه أنه إذا وقف كتبا وعين موضعها فإن وقفها على أهل ذلك الموضع ، لم يجز نقلها منه لا لهم ولا لغيرهم ، وظاهره أنه لا يحل لغيرهم الانتفاع بها وإن وقفها على طلبة العلم ، فلكل طالب الانتفاع بها في محلها وأما نقلها منه ، ففيه تردد ناشئ مما تقدمه عن الخلاصة من حكاية القولين ، من أنه لو وقف المصحف على المسجد أي بلا تعيين أهله قيل يقرأ فيه أي يختص بأهله المترددين إليه ، وقيل : لا يختص به أي فيجوز نقله إلى غيره”

فتاوی عالمگیری، کتاب الکراھیۃ، باب الخامس (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر9 صفحہ نمبر 113) میں ہے:"المصحف إذا صار خلقا لا يقرأ منه ويخاف أن يضيع يجعل في خرقة طاهرة ويدفن، ودفنه أولى من وضعه موضعا يخاف أن يقع عليه النجاسة أو نحو ذلك ويلحد له، لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضا كذا في الغرائب”

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، سنن الغسل  (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر1 صفحہ نمبر354) میں ہے:"(فروع) المصحف إذا صار بحال لا يقرأ فيها يدفن كالمسلم. قال ابن عابدين: قوله (يدفن) أي يجعل في خرقة طاهرة و يدفن في محل غير ممتهن لا يوطأ. و في الذخيرة و ينبغي أن يلحد له و لا يشق له لأنه يحتاج إلی إهالة التراب عليه و في ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقفاً بحيث لا يصل التراب إليه فهو حسن أيضاً  وأما غيره من الكتب فسيأتي في الحظر والإباحة أنه يمحى عنها اسم الله تعالى وملائكته ورسله ويحرق الباقي ولا بأس بأن تلقى في ماء جار كما هي أو تدفن وهو أحسن اهـ .وقوله:(كالمسلم) فإنه مكرم و إذا مات و عدم نفعه يدفن، و كذلك المصحف فليس في دفنه إهانة له، بل ذلك إكرام خوفاً من الامتهان”

رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الوقف  (طبع: مکتبہ رشیدیہ، جلد نمبر6 صفحہ نمبر551) میں ہے:"( ومثله ) في الخلاف المذكور ( حشيش المسجد وحصره مع الاستغناء عنهما و ) كذا ( الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما فيصرف وقف المسجد والرباط والبئر ) والحوض ( إلى أقرب مسجد أو رباط أو بئر ) أو حوض ( إليه )”

کفایت المفتی، کتاب الوقف،چھٹا باب مصارف وقف (طبع: دار الاشاعت کراچی، جلد نمبر 7 صفحہ نمبر 257)میں  ہے:"(سوال) ہمارے یہاں ٹھیاواڑ میں ایک مسجد میں محلہ کی ضرورت سے زائد قرآن مجید موجود ہیں۔ رمضان مبارک کے مہینہ میں بھی قرآن مجیدوں کے پڑھنے کا موقع نہیں آتا ہے۔ ہم یہ دیکھ کر حیران ہیں کہ جب قرآن مجید پڑھنے میں نہیں آتے تو اب کیا کریں۔ اس لئے دریافت طلب یہ ہے کہ زائد قرآن مجید کو دوسری مسجد یا مدرسہ میں دے سکتے ہیں یا ان کو ہدیہ کر کے اس رقم کو مسجد کے خزانہ میں جمع کر سکتے ہیں یا نہیں؟۔۔۔الخ(جواب ۲۴۷) زائد قرآن مجیدوں کو دوسری مساجد یا مدرسوں میں پڑھنے کے لئے دے دیا جائے کیونکہ ان کے وقف کرنے والوں کی غرض یہی ہے کہ ان قرآن مجیدوں میں تلاوت کی جائے۔۔۔الخ”

احسن الفتاوی، کتاب الوقف، باب المساجد (طبع: ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی، جلد نمبر 6صفحہ نمبر 455)میں ہے:سوال: آجکل مساجد میں لوگ عموماً بلا اجازت قرآن مجید اتنی کثرت سے رکھ جاتے ہیں کہ قرآن مجید کے ڈھیر لگ جاتے ہیں جو یونہی مدتوں رکھے رہتے ہیں، انہیں نہ کوئی اٹھاتا ہے نہ تلاوت کرتا ہے، بالآخر بوسیدہ ہو جانے کے بعد ان کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ اگر یہ قرآن مجید نادار بچوں کو دیدئیے جائیں جو مکتب یا مدرسہ میں پڑھتے ہیں تو جائز ہے یا نہیں؟الجواب باسم ملھم الصواب: کسی کی ملک میں دینا جائز نہیں، نہ ہی مدرسہ میں دئیے جا سکتے ہیں، البتہ بحالت استغناءدوسری قریب تر مسجد کی طرف منتقل کرنے کی اجازت ہے”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved