- فتوی نمبر: 23-236
- تاریخ: 29 اپریل 2024
استفتاء
ایک جامع مسجد کے ماتحت مدرسہ البنات تین منزلہ عمارت پر مشتمل ہے گراؤنڈ فلور خالی ہے پہلی اور دوسری منزل میں بچیاں پڑھتی ہیں کیا گراؤنڈ فلور کو کرائے پر دے سکتے ہیں ؟تاکہ آمدنی کو مسجد اور مدرسہ کے اخراجات پر خرچ کیا جا سکے۔
وضاحت مطلوب ہے:1- مسجد اور مدرسہ کی ایک ہی عمارت ہے یا الگ الگ ہے ؟ 2-نیز واقف نے وقف کرتے وقت کیا اس کی اجازت دی تھی کہ مدرسے کی خالی جگہ کو کرائے پر دیا جاسکتا ہے ؟3- کرایہ دار اس میں کیا کام کرے گا؟
جواب وضاحت :1-مسجد الگ جگہ پر ہے اس کے بالمقابل الگ عمارت مدرسۃ البنات کی ہے جو چار پلاٹس پر مشتمل ہے۔
.2- پرانی بات ہے مخیر صاحب نے جگہ خریدکرمدرسے کیلیے وقف کردی اور مولانا صاحب کو دے دی مولاناصاحب نے اس پر مدرسۃ البنات بنایااور کرایہ پر دینے کی کوئی بات نہیں ہوئی ۔
3-مولانا صاحب چندہ نہیں کرتے جومخیر حضرات لاکر دے دیں وہ قبول کرلیتے ہیں مستقل ذریعہ آمدنی نہیں ہے۔
مدرسۃ البنات کے گراؤنڈ فلور پر پہلے رفاہی کلینک قائم تھا. وہ بھی کسی مخیر ڈاکٹر نے طلبا ءوطالبات اور عوام الناس کے لیے قائم کیا تھا کچھ عرصہ بعد وہ مخیر ڈاکٹر بھی کلینک بند کرکے چلے گئے اب گراؤنڈ فلور خالی ہے۔
مولانا صاحب اس میں پورشن بناکر رہائش کے طور پر کرایہ پر دینا چاہتے ہیں تاکہ مسجد مدرسے کے اخراجات میں مدد ملے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں مدرسہ کی فارغ جگہ کو مدرسہ کی ضرورت کی وجہ سے کرایہ پر دیا جا سکتا ہےاور وہ کرایہ صرف مدرسہ کی ضروریات میں خرچ ہوگا نہ کہ مسجد کی ۔ البتہ اس میں دو باتوں کا خیال رکھا جائے:
1۔ کرایہ پر دینے کا معاملہ زیادہ لمبی مدت کے لیے نہ کیا جائے۔
2۔ مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرایہ پر دیا جائے۔
المحيط البرهانی (9/ 31)میں ہے:قال الصدر الشهيد في واقعاته: المختار أن يفتى في الضياع بالجواز في ثلاث سنين إلا إذا كانت المصلحة في عدم الجواز، و في غير الضياع يفتى بعدم الجواز فيما زاد على السنة، إلا إذا كانت المصلحة في الجواز، و هذا أمر يختلف باختلاف المواضع، و اختلاف الزمان، و كان القاضي الإمام أبو علي النسفي يقول: لا ينبغي للمتولي أن يؤاجر أكثر من ثلاث سنين، و لو فعل جازت الإجارة و صحت و على هذا القول لا يحتاج إلى الحيلة التي ذكرناها في الإجارة الطويلة.
فتاوی ہندیہ (2/ 419)میں ہے؛و لا يجوز إجارة الوقف إلا بأجر المثل كذا في محيط السرخسي.
امداد الاحکام (3/ 599) میں ہے:سوال: ایک شخص نے اپنی مملوکہ زمین ’’مدرسہ انجمن اسلام‘‘ کے نام سے سے دینی تعلیم کے لیے وقف کر دی، اور چھ متولی مقرر کیے، جماعت نے چندہ کر کے مدرسہ قائم کیا۔ اور ایک عرصہ سے کلام مجید اور ابتدائی دینی تعلیم جاری ہے، سرکار نے پڑوس کی زمین میں ایک سکول برائے تعلیم انگریزی ہندؤوں کے لیے کھول دیا، مکان اسکول کی قلت گنجائش کی وجہ سے مشترک ٹیچر نے متولیوں سے چھ ماہ کے لیے مدرسہ عاریتاً مانگا، تاکہ 9 بجے سے 12 بجے یا 2 بجے تک کفار کے لڑکے بشمول مسلم بچوں کے انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ متولیین نے آپس میں مشورہ کیا، نصف دینے پر راضی ہوئے اور نصف ناراض، آخر کار جماعت نے تقاضا کیا کہ عام جلسہ کیا جائے اور جو جماعت کی رائے ہو اس پر عمل کیا جائے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ سوائے مذکور تین متولیان کے جماعت ناراض رہی جس کی وجوہات جماعت نے حسب ذیل بیان کیا:1، واقف نے برائے اہل اسلام، دینی تعلیم کے لیے وقف کیا، چنانچہ مدرسہ بنایا گیا، اب جماعت کو اختیار ہے کہ ہر وہ عمل جو خلاف مذہب اورمقصود ہو اس سے متولیین اور خود واقف کو بھی منع کرے۔2۔ چونکہ مدرسہ مسلم بچوں کے لیے ہے، اس لیے کفار کو اس مدرسہ کا عاریتاً دینا تاکہ وہ دنیوی فائدہ حاصل کرے نا جائز ہے۔ اس لیے کہ یہ اس کا مصرف نہیں ہے۔3۔ غضب یہ ہے کہ مسلمان بچے قرآن پڑھنے والوں کے لیے کہا گیا کہ وہ کفار کے بچوں کے آنے سے پہلے کلام پاک کو لے کر مدرسہ خالی کر کے مدرس کے مکان کے برآمدہ میں بیٹھ کر دینی تعلیم پائیں۔ اور یہ استخفاف دین اور استخفاف کلام اللہ و علم دین ہے۔4۔ اور ہم نے کئی دفعہ متبرک ایام میں اور رمضان میں تراویح وغیرہ پڑھی ہے گو کہ ایسا کرنے سے اس کا حکم مسجد کا سا نہیں ہوتا، تاہم ہماری غیرت اسلامی اور ہمارا ایمان اس بات کو گوارا نہیں کر سکتا کہ جس جگہ ہم نے خدائے بزرگ و برتر کے سجدہ کیا ہو، اس جگہ کو کفار اپنے دنیوی فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے مصرف میں لائیں۔5۔ اگرچہ بعض متولین شریعت کی اجازت کی دلیل بھی لائیں تاہم عامۂ جماعت کے خلاف مرضی جواز پر عمل نہیں کر سکتے۔ نصف مذکور متولین مع واقف و کافر ٹیچر کے ایک مولوی صاحب کے پاس گئے، اور واقعہ سنا کر فتویٰ چاہا، کہ آیا ہم اسلامی مدرسہ کو سرکاری اسکول کے بچوں کی تعلیم کے لیے (جو کثرت کفار اور قلت مسلمین پر مشتمل ہے) کچھ مدت کے لیے دے سکتے ہیں یا نہیں؟ تو اعلیٰ حضرت نے فتویٰ دیا کہ جائز ہے کوئی حرج نہیں، انگریزی پڑھ سکتے ہیں، چھ مہینہ تو کیا چار برس کے لیے بھی دیدو، سرکار کی مدد کرو۔ اس میں فائدہ ہے، کفار کے بچوں کا دینی مدرسہ کو اپنے مصرف میں لانا، اور انگریزی پڑھنے پڑھانے کی دلیل میں ارشاد ہوتا ہے کہ حضور رسول اکرم ﷺ نے کفار کو مسجد میں مہمان رکھا، اور ایک کافر نے پائخانہ بھی کر دیا تھا، وغیرہ وغیرہ، چہ جائیکہ یہ مدرسہ ہے نہ کہ مسجد۔
اب علماء کرام سے دست بستہ عرض ہے کہ مع دلائل شریعت غرا جواب سے سرفراز فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔الجواب: اگر مدرسہ میں جگہ زائد ہو، اور کرایہ پر دیدیا جائے تو جائز ہے، ورنہ طلبہ دین کو پریشان کر کے کسی اور کو وہ مکان کرایہ پر دینا بھی جائز نہیں، اور بلا کرایہ دینا تو کسی حال میں جائز نہیں، جگہ زائد ہو یا نہ ہو، بچے کفار کے ہوں یا مسلمان کے۔ اور یہ مسئلہ بالکل ظاہر ہے، کیونکہ واقف نے جس شرط پر وقف کیا ہو، اس کی رعایت کرنا واجب ہے، جیسا کہ تمام کتب فقہ میں موجود ہے۔ اور جو دلیل جواز کی سوال میں لکھی ہے ، اس کو اس مقام سے کوئی تعلق نہیں۔ مسجد نبوی (علیٰ صاحبہا الصلاۃ و السلام) میں کفار کا آنا اسلام کی باتیں سننے کے واسطے تھا، نہ کہ اپنا کوئی دنیوی کام کرنے کو۔ سو اب بھی اگر کوئی کافر اسلام کی خوبیاں دریافت کرنے مدرسہ میں یا مسجد میں آئے تو کوئی منع نہ کرے گا، بلکہ جملہ اہل اسلام بہت خوش ہوں گے۔ و اللہ اعلم
اگر کرایہ پر دینے سے بھی یہ خطرہ ہو کہ آئندہ مدرسہ کو یہ زمین واپس نہ ملے گی، یا طلبۂ دین پر ان کے اخلاق و اعمال کا بر اثر پڑے گا تو کرایہ سے دینا بھی جائز نہیں۔ (ظفر احمد عفا اللہ عنہ) ‘‘
فتاویٰ رحیمیہ (9/ 88) میں ہے:
سوال: ہمارے ہاں عربی مدرسہ نہیں تھا۔ ایک سخی صاحب مال نے اپنی طرف سے مدرسہ بنوا دیا۔ لیکن روز بروز بچوں کی تعداد میں اضافہ ہونے سے وہ مدرسہ نا کافی نظر آیابچوں کو بٹھانے میں تکلیف تھی جس کی بناء پر جدید وسیع مدرسہ بنایا گیا۔ فی الحال بچے اس نئے مدرسہ میں تعلیم لیتے ہیں۔ لہذا اس سخی سرمایہ دار کا بنایا ہوا مدرسہ بند پڑا ہے، تو اس کو کرایہ پر دے سکتے ہیں یا نہیں؟ اس کی کرایہ کی رقم جدید مدرسہ میں خرچ کر سکتے ہیں یا نہیں؟
جواب: قدیم مدرسہ سخی مالدار نے جس نیت اور مقصد سے بنایا ہے اس کا خیال رکھ کر جہاں تک ممکن ہو اس سے وہی کام لیا جائے، لڑکوں کا نہیں تو لڑکیوں کا مدرسہ چلائے ، اگر اس کی بھی ضرورت نہ ہو اور بے کار پڑا ہے تو کرایہ پر دے سکتے ہیں اور اس کی رقم مدرسہ کے خرچ میں لے سکتے ہیں۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved