• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جانور کو بے حس کرکے ذبح کرنا جائز نہیں

  • فتوی نمبر: 12-387
  • تاریخ: 20 اپریل 2018

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کہ بارے میں کہ جانور کو ذبح کرنے سے پہلے مخصوص قسم کا انجکشن لگا کر بے حس کر دیا جاتا ہے بعد میں اس کو ذبح کیا جاتا ہے۔ کیا اس سے اس جانور کے گوشت کو نقصان پہنچتا ہے یعنی اس کا گوشت بعد میں کھانا مکروہ ہے یا نہیں ؟  با حوالہ جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

انجکشن لگا کر جانور کو بے حس کرنے کا عمل نا جائز ہے، تا ہم ایسے جانور کے گوشت کے بارے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:

اگر معلوم ہے کہ وہ زندہ ہے تو اگر چہ حیات کتنی قلیل ہی کیوں نہ ہواور اگر چہ ذبح کے بعد جانور نے نہ حرکت کی ہو اور نہ ہی خون نکلا ہو تب بھی جانور حلال ہے۔ اور اگر ذبح کے وقت معلوم نہ ہو کہ جانور زندہ ہے یا مر چکا ہے تو اگر اس نے ذبح کے بعد حرکت کی  یا خون نکلا جتنا کہ زندہ میں سے نکلتا ہے تو جانور حلال ہے اور اگر جانور نے نہ حرکت کی اور نہ ہی خون نکلا لیکن اگر اس نے اپنا منہ بند کیا تو حلال ہوگا اور اگر منہ کھولا تو حرام ہوگا یااگر اس نے اپنی ٹانگ سکیڑی تو حلال ہوگا اور اگر ٹانگ پھیلائی تو حرام ہوگا یا اگر اس کے بال کھڑے ہوئے تو حلال ہوگا اور اگر بال گرے رہے تو حرام ہوگا کیونکہ موت سے اعضاء  ڈھیلے ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے منہ کھل جاتاہے، آنکھیں کھل جاتی ہیں اور بال گر جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ موت کی علامتیں ہیں۔ اگر ان کے برعکس جانور منہ بند کر لے یا آنکھیں بند رکھے یا ٹانگ سکیڑے تو یہ جانور کے زندہ ہونے کی علامتیں ہیں۔

( ذبح شاة لم تدر حياتها وقت الذبح ) ولم تتحرك ولم يخرج الدم ( إن فتحت فاها لا تؤكل وإن ضمته أكلت وإن فتحت عينها لا تؤكل وإن ضمتها أكلت وإن مدت رجلها لا تؤكل وإن قبضتها أكلت وإن نام شعرها لا تؤكل وإن قام أكلت ) لأن الحيوان يسترخي بالموت ففتح عين ومد رجل ونوم شعر علامة الموت لأنها استرخاء ومقابلها حركات تختص بالحي فدل على حياته وهذا كله إذا لم تعلم الحياة ( وإن علمت حياتها ) وإن قلت ( وقت الذبح أكلت مطلقا ) بكل حال زيلعي.                                    (الدر المختار: 9/514)

فالحاصل أن ما فيه زيادة ألم لا يحتاج اليه في الذكاة مكروه كذا في الهداية قال في شرح أبي المكارم: فكان هذا أصلا جامعا في افادة معنى الكراهة ……و المراد بالكراهة كراهة ذلك الفعل لأن الذبيح يحل أكله في جميع ما ذكرنا لأن الكراهة لمعنى زائد و هو زيادة الألم فلا يوجب الحرمة كذا في التبيين       (فاكهة البستان: 99)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved