• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والد کی جگہ شوہر کا نام لگانا

استفتاء

میں اس پوسٹ میں کے بارے میں پوچھنا چاہتی ہوں کیا یہ درست ہے ۔برائے مہر بانی میرا اشکال دور فرمائیں تو دعاگو رہوں گی ۔۔۔

جو عورتیں اپنے والد کا نام ہٹا کر اس کی جگہ اپنے شوہر کانام اپناتی ہیں وہ غور سے پڑھیں کہ یہ حرام ہے ۔

مان لو کسی عورت کا شادی سے پہلے نام فاطمہ مقصود علی تھا اور شادی کے بعد اپنے شوہر کے نام کے ساتھ جو ڑ کر فاطمہ ساجد رکھ دیا،یہ حرام ہے۔ اس کی اجازت نہیں کہ کوئی اپنے باپ کا نام ہٹاکر اپنے شوہر کا نام اپنے نام کے  آگے لگائے ۔یہ کفار کا طریقہ ہے۔ہمیں اس کو اپنانے سے بچنا چاہیے ۔

حضورﷺ کی حدیث کی روشنی میں دیکھیں :

رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے جس نے اپنے نام کواپنے والد کے نام کے علاوہ  اپنے نام میں کسی دوسرے کا نام جوڑا (جو اس کا باپ نہیں )اس پر اللہ تعالی اور اس کے فرشتوں کی لعنت ہے۔(ابن ماجہ حدیث نمبر 2599)

حضرت ابو در ؓنے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا !کسی  آدمی نے اپنے والد کے سوا اپنی شناخت کسی اور کے ساتھ ملائی اس نے کفر کیا ۔جس نے اس شخص سے انپے نام کو جوڑا جو اس کا باپ نہیں وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔(بخاری شریف ص3508)

حضرت سعدؓبن ابی وقاص یا حضرت ابوبکر  ؓنے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا !جو یہ کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے اور وہ کسی کے ساتھ خود کو جوڑتا ہے جو اس کا باپ نہیں یہ جان کر کہ وہ اس کا حقیقی باپ نہیں جنت اس کے لیے حرام ہے۔(بخاری شریف 4072)

اس سے زیادہ اور کیا وارننگ ہوسکتی ہے کہ یہ کفار کاطریقہ ہے۔حضرات یہ کفار کا طریقہ تھا اور  آج ہماری بہنیں بڑے شوق سے اس کو اپناتی ہیں ۔یاد رہے باپ کا رشتہ کسی بھی رشتے کی وجہ سے نہیں ٹوٹتا اور اولاد کی شناخت اور پہچان اس کے والد کے نام سے ہوگی ۔اگر شوہر کا نام لگانا جائز اور صحیح ہوتا تو حضور علیہ السلام کی بیویوں نے بھی اپنا نام بدلا ہوتا کیونکہ ان کے شوہر تو دنیا کے افضل ترین شخص تھے ۔

حضرت خدیجہ ؓہمیشہ خدیجہ بنت خوالد رہیں ،حضرت عائشہ ؓہمیشہ تا عمر عائشہ صدیقہ رہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی بیٹی تھیں ۔ یہاں تک حضور علیہ السلام کی وہ بیویاں جن کے والد کفار تھے  آپ علیہ السلام نے ان کے نام کا لقب بھی کبھی تبدیل نہیں کیا ۔حضرت صفیہ بنت حی ؓکا باپ یہودی تھا اور حضور ﷺ کا جانی دشمن بھی تھا ۔حضور ﷺ نے اپنی بیوی حضرت صفیہ ؓکیسا تھ ان کے لقب کو بدلنے کے بجائے ویسے ہی برقرار رکھا ۔جنت میں عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ ؓہمیشہ فاطمہ بنت محمد ﷺرہیں۔انہوں نے حضرت علی ؓکے نام کے ساتھ اپنے نام کو کبھی نہیں جوڑا۔گزارش ہے کہ جس بہن نے غلطی سے ایسا کیا ہے یا کسی شوہر نے لاعلمی میں ایسا کیا ہو وہ اللہ تعالی کے حضور سچی توبہ کرے اور اپنے والد کا نام واپس اپنے نام کے سا تھ جوڑے۔ہمیں اپنے اعمال کا حساب اپنے اللہ عزوجل کو دینا ہے اور یہ سراسر اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺکی نافر مانی ہے ۔حضرات اس پوسٹ کو پڑھنے کے بعد زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ یہ بات ہر مسلمان تک پہنچے اور وہ اس  پر عمل کرے اور  آپ کو بھی نیت خیر کا ثواب ملے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ پوسٹ میں جن احادیث کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ ’’جو عورتیں اپنے والد کا نام ہٹا کر اس کی جگہ اپنے شوہر کا نام اپناتی ہیں۔۔۔یہ حرام ہے‘‘ ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اپنی ولدیت اپنے والد کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرے اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہے کیونکہ یہ نسب کو تبدیل کرنا ہے ۔شادی کے بعد اگر کوئی عورت اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام لگاتی ہے تو وہ بطور ولدیت کے نہیں لگاتی بلکہ محض ایک تعارف اور پہچان کے لیے لگاتی ہے اس کو ولدیت کے طور پر سمجھنا غلط فہمی ہے اس لیے مذکورہ احادیث کی بنا پر اسے ناجائز اور حرام وغیرہ کہنا صحیح نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved