• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مسجد میں نماز کے بعد فضائل اعمال کی کتاب پڑھنا

استفتاء

میں نے پڑھا  ہے  کہ جب کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے پاس اونچی آواز میں قرآن پاک پڑھنا بھی گناہ ہے ۔ہماری مسجد میں ہم ابھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں  کہ کچھ لوگ پاس ہی فضائل اعمال کی کتاب پڑھنے لگ جاتے ہیں جس سے نمازمیں  خلل   پیدا ہوجاتا ہے  اور بعض اوقات نماز میں بھول بھی ہو جاتی ہے اور خشوع وخضوع میں کمی آتی ہے ۔

وضاحت مطلوب ہے: (1) کیا وہ فرض نماز کے دوران ایسا کرتے ہیں ؟(2)یا فرض کے فوراً بعد سنن موکدہ کے دوران ایسا کرتے ہیں؟(3)یا کچھ وقت گذر جانےکے بعد ایسا کرتے ہیں؟(4)مسجد میں لوگ کب تک سنتیں اور نوافل پڑھتے رہتے ہیں؟

جواب وضاحت:کچھ وقت گذر جانے کےبعد کرتے ہیں، کچھ نمازی آرام سے پڑھ رہے ہوتے ہیں نفل بھی پڑھتے ہیں تو یہ جلدی نماز مکمل کرکے کتاب لے کر پڑھنے لگ جاتے ہیں ۔اب کوئی نماز ی دیر سے بھی آجاتے ہیں تو کیا اس نمازی کی نماز کے دوران بھی اونچی آواز میں کوئی کتاب یا گفتگو کرنی چاہیے؟جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو اور اونچی آواز میں بولا جائے تو کیا نماز میں خلل پیدا نہیں ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس معاملے میں کتاب پڑھنے والوں اور نمازی حضرات دونوں کو ایک دوسرے کی رعایت کرنی چاہیے چانچہ کتاب پڑھنے والوں کو چاہیے کہ سنت ونوافل کے لیے مناسب وقت تک انتظار کریں اورآواز اتنی بلند رکھیں جتنی ضرورت ہو  نمازی حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ سنت ونوافل سے ذرا جلدی فارغ ہوجائیں یا بعد میں پڑھ لیں یا گھر جاکر پڑھ لیں کیونکہ جہاں ایک  طرف یہ حکم ہے کہ نمازی کے قریب خلل والا کام نہ کیا جائے وہیں یہ حکم بھی ہے کہ مسجد میں صرف فرض پڑھے جائیں اور سنت ونوافل گھر میں پڑھے جائیں ۔نیز مسجد  صرف نماز کےلیے نہیں تعلیم وتعلم اور وعظ ونصیحت بھی مسجد کے مقاصد میں شامل ہیں ۔

نوٹ:باجماعت نماز والے نمازیوں کی رعایت کی صورت یہ ہوسکتی ہے باقی رہا بعد میں آنے والا نمازی تو اسے چاہیے کہ نماز ایسی جگہ پڑھے جہاں آواز خلل انداز نہ ہوتی ہو۔

(1)مسند أحمد  (4/ 222) میں ہے:

عن على رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى ان يرفع الرجل صوته بالقراءة قبل العشاء وبعدها يغلط أصحابه وهم يصلون.

(2)حاشية ابن عابدين (2/ 22)

( والأفضل في النفل الخ ) شمل ما بعد الفريضة وما قبلها لحديث الصحيحين عليكم بالصلاة في بيوتكم فإن خير صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة وأخرج أبو داود صلاة المرء في بيته أفضل من صلاته في مسجدي هذا إلا المكتوبة وتمامه في شرح المنية وحيث كان هذا أفضل يراعى ما لم يلزم منه خوف شغل عنها لو ذهب لبيته أو كان في بيته ما يشغل باله ويقلل خشوعه فيصليها حينئذ في المسجد لأن اعتبار الخشوع أرجح

(2)عمدة القاري (8/ 481) میں ہے:

أن النبي قال صلوا أيها الناس في بيوتكم فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة ثم قال وقفه مالك أخبرنا قتيبة بن سعيد عن مالك عن أبي النضر عن بسر بن سعيد أن زيد بن ثابت قال أفضل الصلاة صلاتكم في بيوتكم يعني إلا صلاة الجماعة قلت وروى عن مالك خارج(الموطأ ) مرفوعا.

(2)کفایت المفتی جلد (3/314)میں ہے:

(سوال )  بعددعا کے سنت اور نفل گھر میں  جاکر پڑھنا افضل ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔  بینوا تو جروا  

(جواب : ۔۔۔۔نوافل کو گھر میں پڑھنے کا استحباب احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور اس خصوص میں کوئی حدیث اس کے معارض بھی نہیں ہے تو یقیناً راحج  یہی ہے کہ بعد فرائض اذکار وادعیہ ماثورہ پڑھ کر گھر جاکر سنن و نوافل پڑھنا مسنون ہے  ۔۔۔

(3)رد المحتار (5/ 103) میں ہے:

( قوله فاستماع العظة أولى ) الظاهر أن هذا خاص بمن لا قدرة له على فهم الآيات القرآنية والتدبر في معانيها الشرعية والاتعاظ بمواعظها الحكمية ، إذ لا شك أن من له قدرة على ذلك يكون استماعه أولى بل أوجب ، بخلاف الجاهل فإنه يفهم من المعلم والواعظ ما لا يفهمه من القارئ فكان ذلك أنفع له.

(3)البحر الرائق (2/ 36) میں ہے:

{وأن المساجد لله}وما تلوناه من الآية السابقة فلا يجوز لأحد مطلقا أن يمنع مؤمنا من عبادة يأتي بها في المسجد لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة واعتكاف وذكر شرعي وتعليم علم وتعلمه وقراءة قرآن.

فتاو ی محمودیہ(4/318) میں ہے:

اگر اتفاق سے کوئی شخص کچھ دیر میں آیا اور اس کی رکعت رہ گئی جو کہ سلام امام کے بعدپوری کرےگا۔تبلیغ والوں کو چاہیے کہ وہ اس کا لحاظ کریں کہ اس کی رہی ہوئی نمازمیں خلل واقع نہ ہو ،اس کو تشویش لاحق نہ ہو ۔اگر کسی کی پوری نماز رہ گئی ہو وہ علیحدہ فاصلہ پر اپنی نماز اداکرلے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved