- فتوی نمبر: 11-255
- تاریخ: 19 فروری 2018
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
ایک مسئلہ عرض کرنا ہے میں سونے کی پالش کا کام کرتا ہوں ہم جس دکاندار کاکام کرتے ہیں اس کو 50گرام سونا ایڈوانس دیتے ہیں اور وہ ہم سے کام پالش کرواتا ہے جب اس کا کام ہم پالش کرتے ہیں تو اس کے کام میں ہم اپنی ویسٹ یا مزدوری سے کچھ زائد سونا اتار لیتے ہیں مثلا ہماری مزدوری بنتی ہے ایک گرام تو ہم اس کے کام سے دوگرام سونا اتار لیتے ہیں اس طرح کچھ عرصے میں ہمارا سونا ہمیں وصول ہو جاتا ہے اس میں جتنا سونا دیا جاتا ہے اتنا ہی واپس لیا جاتا ہے کمی یا زیادتی نہیں کی جاتی آپ مہربانی کرکے بتادیں کہ اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں ہے ۔اور یہ بات دوکاندار کے علم اور رضا مندی سے ہوتی ہے ۔گویا اپنا دیا ہوا سونا واپس وصول کرنے کا یہ طریقہ ہے ۔یہ صرف ایک دفعہ کا قصہ نہیں بلکہ ایک ٹرینڈ ہے ۔چنانچہ جب بھی پہلا سونا ختم ہوتا ہے نیا ایڈوانس دیا جاتا ہے۔
مذکورہ سونا بطور گارنٹی نہیں لیا جاتا بلکہ بطور قرض ہی لیا جاتا ہے ۔البتہ قرض مانگنے والے دکاندار دو طرح کے ہوتے ہیں ۔
1۔بڑے دکاندار جن کے پاس وسعت بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ قرض مانگتے ہیں تاکہ کاروبار بھی بڑھ جائے اور ان کا سرمایہ بھی کم سے کم لگے ۔یا ان کے پاس جتنا زیادہ سرمایہ ہو گا وہ اپنے کاروبار کو اتنا زیادہ بڑھا سکیں گے ۔ان کے پیش نظر بات یہ ہوتی ہے کہ پالش والے کی مزدوری اسی سے سونے سے تھوڑی تھوڑی کر کے چکاتے رہیں۔
2۔چھوٹے دکاندار جنہیں کام آتا ہے لیکن کسی بھی وجہ سے سرمائے کی قلت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ کسی بھی آرڈر کو پورا کرنے کے لیے شروع میں سونا اس آرڈر کے حساب سے درکا ر ہوتا ہے ۔
مذکورہ سوال دوسری قسم کے چھوٹے دکاندار سے متعلق ہے ۔نیز وہ دکاندار سائل سے ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے قرض کا تقاضا تو کررہا ہے لیکن اس نے سائل کو ابھی سے آرڈر دینے بھی شروع کردیےہیں ۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت کو معمول بنانا جائز نہیں کیونکہ یہ قرض اور اجارے کے معاملے کو جمع کرنے کی ہے جو کہ اگر مشروط ہو یا معروف ہو تو ناجائزہے اور حدیث سے اس کی ممانعت ثابت ہو تی ہے ۔البتہ کسی وقتی ضرورت کے پیش نظر کبھی کبھار یہ صورت اختیار کی جائے تو جائز ہے
© Copyright 2024, All Rights Reserved