• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ایک حدیث کی تشریح

استفتاء

رسول اللہ ﷺنےفرمایا:

جب نماز پڑھتے وقت کسی کو اونگھ آجائے تو اسے سو جانا چاہئے یہاں تک کہ اس سے نیند کا اثر ختم ہو جائے اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور وہ اونگھ رہا ہوتا ہے تو وہ نہیں جانتا کہ وہ مغفرت طلب کر رہا ہے یا اپنے نفس کو بد دعا دے رہا ہے۔(بخاری:212)

اس حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اگرنیند آرہی ہو تو انسان نماز مؤخر کر سکتا ہے۔لیکن اگر نماز کا وقت نکل رہا ہو تو پھر بھی ایسا کرنا چاہیے؟ایسا انسان کب اور کس کس موقع پرکرسکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

یہ حدیث بعض علماء کے نزدیک صرف رات کے نفلوں کے بارے میں ہے فرض نمازوں کے بارے میں نہیں ہے۔جبکہ اکثر علماء کے نزدیک فرض نمازوں کے بارے میں بھی ہے لیکن ان کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ فرض نماز کا وقت نہ نکل رہا ہو۔

شرح النووی على مسلم (6/ 74)میں ہے:

قوله: إذا نعس أحدكم في الصلاة فليرقد حتى يذهب عنه النوم إلى آخره…. هذا عام في صلاة الفرض والنفل في الليل والنهار وهذا مذهبنا ومذهب الجمهور لكن لا يخرج فريضة عن وقتها قال القاضي وحمله مالك وجماعة على نفل الليل لأنه محل النوم غالبا.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved