• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پراویڈنٹ فنڈ سے ملنے والانفع لینے کاحکم

  • فتوی نمبر: 13-201
  • تاریخ: 07 اپریل 2019

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ:

میں نے pkliپہلی جنوری کو جوائن کیا ۔کمپنی کے عقد کے مطابق میری تنخواہ سے پراویڈنٹ فنڈ کٹے گا ۔یہ پراویڈنٹ فنڈ اختیاری ہے جس کا مطلب ہے کہ اگر میں یہ اسکیم لینا چاہوں تولوں اس کو چھوڑنا چاہوں تو چھوڑ سکتا ہوں ۔چھوڑنے کی صورت میں پیسے نہیں کٹیں گے ۔پراویڈنٹ فنڈ کی تفصیل یہ ہے کہ میری تنخواہ سے ایک مخصوص شرح میں کٹوتی ہو گی اور اتنی ہی مقدار کمپنی کی جانب سے ملائی جائے گی اور دونوں کو کسی اسلامک فنڈ میں ڈال دیا جائے گا ۔اخیر میں ملازم کو یہ دونوں رقوم بمع اس پر آنے والا نفع ملے گا ۔فائنانس ڈیپارئمنٹ والوں کے بقول اگر میں چاہوں تو یہ درخواست دے سکتا ہوں کہ اس نفع کو میرے پراویڈنٹ فنڈ میں نہ ڈالیں ۔یہ مجھے لکھ کر دینا ہو گا ۔

اس بابت ایک اور اپڈیٹ جو مجھے حاصل ہوئی وہ یہ ہے کہ pkliکے بورڈ نے حال ہی میں اس بات کی منظوری دی ہے کہ اس پراویڈنٹ فنڈ کو پینشن فنڈ میں تبدیل کردیا جائے ۔ان دونوں کے درمیان فرق بس یہ ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ میں ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے۔ جبکہ پینشن فنڈ میں ٹیکس ریلیف دیا جاتا ہے ۔باقی طریقہ کار دونوں کا یکساں ہے ۔یعنی تنخواہ میں سے مخصوص مقدار کی کٹوتی ہو گی اتنی مقدار ادارے کی جانب سے شامل کی جائے گی اور ان دونوں رقوم کو کسی اسلامک یونٹ میں ڈال دیا جائے گا۔جو اسلامک یونسٹس نظر میں ہیں وہ (1)نافع نیشنل بینک کا اکائونٹ اور(2)میزان اسلامک بینکنگ فنڈ ہیں ۔انہوں نے مثال سے سمجھایا کہ مثلا اگر پینشن فنڈ میں پیسے جمع کرواتے وقت ایک یونٹ کی قیمت 100روپے ہے اور اخیر میں 150روپے قیمت ہے تو ہمیں یہ اضافہ ملے گا۔یونٹ کی اس بڑھوتری کو اسلامک سکولرز دیکھتے (مونیٹرکرتے)ہیں تاکہ یہ شریعت کے مطابق رہے (شریعہ کمیلائینٹ)

بندہ کو مندرجہ امور میں رہنمائی مطلوب ہے:

1۔اس مہینے پر اویڈنٹ فنڈ لیا جائے کہ نہیں کیونکہ اس ماہ (جنوری 2018)کی کٹوتی پر اویڈنٹ فنڈ کے اعتبار سے ہو گی الایہ کہ میں اس سے دستبردار ہو جائوں ۔

2۔کیا یہ ہو سکتا ہے کہ میں پراویڈنٹ فنڈ کو قبول کرلوں اور اس پر آنے والا نفع چھوڑدوں کہ ایسا کرنے کی بھی آپشن موجود ہے ۔

3۔شریعت میں پراویڈنٹ فنڈ کو اختیار کرنے کا کیا حکم ہے جبکہ وہ جلد ہی پینشن میں تبدیل ہو رہاہے۔

4۔جب پراویڈنٹ فنڈ پینشن فنڈ میں تبدیل ہو جائے گا تو اس کو اختیار کرنے کا شرعا کیا حکم ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے:

پراویڈنٹ کے پنشن فنڈ ہی تبدیل ہو نے کی وضاحت فرمائیں کہ یہ کیسے ہوگا؟

کیا پہلے پنشن فنڈ موجود نہیں ؟

جواب وضاحت :

پوری تفصیل یہ ہے کہ pkliادارہ کے بورڈ آف ٹرسٹینر نے فیصلہ کیا ہے کہ جو رقم پر اویڈنٹ فنڈ میں جاتی تھی اب وہ رقم کو پنشن فنڈ میں ڈالیں گے۔پہلے کوئی پیشن فنڈ موجود نہیں ہے یعنی پراویڈنٹ فنڈ ہی پینشن فنڈ بن جائیگا ۔جی ہاں !پراویڈنٹ فنڈ ہی پینشن فنڈ بن جائے گا یا اس میں تبدیل ہو جائے گا اس کے بعد کوئی پراویڈنٹ فنڈ باقی نہیں رہے گا۔

پنشن فنڈ کی تفصیل

1۔یہ ایک اختیاری فنڈ ہے (اگر میں چاہوں تو اس فنڈ کے لینے سے انکار کرسکتاہوں )

2۔اس میں بنیادی ماہانہ تنخواہ کا 10فیصد کاٹا جائیگا اور (10فیصد کے برابر رقم )pkliادارہ اپنی طرف سے ڈالے گا۔

3۔پھر یہ رقم کسی اسلامی فنڈ میں ڈال دی جائیگی جیسا کہ میزان بنک یا نیشنل بنک کا نافع اکائونٹ وغیرہ یہ اسلامی اکائونٹ اس رقم کو investکرے گا یہ investیا سرمایہ کاری اسلامی اصولوں کے مطابق Risk free category میں ہوگی اس کا مطلب مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ ایسی جگہ انویسٹ کیا جاتا ہے جہاں نقصان کا رسک کم ہو اور یہ کہ اس categoryمیں عموما آپ کی رقم میں سالانہ 7سے8فیصد کے قریب منافع ملتاہے اور نقصان نہ ہونے کے برابر ہے (جبکہ ا س کے مقابلے میں ایک riskyسرمایاکاری بھی ہو تی ہے جس میں نقصان ہونے کا اندیشہ کا فی زیادہ ہوتا ہے ،مثال کے طور پر سٹاک مارکیٹ وغیرہ میں لیکن اس رسک کے ساتھ ساتھ اس کا avcase returnبھی risk freeکے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے یعنی کہ (15سے 20یا 30%منافع )

یہ اسلامی اکائونٹ کو ایک شریعہ بورڈ نگرانی کرتاہے اور یہ بورڈ ہر 3ما ہ بعد سرٹیفکیٹ دیتا ہے کہ ہم نے معائنہ کرلیاہے کہ یہ شرعی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور آیا کہ غیر شرعی طریقے اختیار نہیں کیے گے ؟

4۔اسلامک فنڈ میں اس رقم کاحساب لگا کر کچھ یونٹ مجھے دیئے جائیں گے مثلا میری رقم کے اگر 100یونٹ بنتے ہیں تو ہر یونٹ کی ایک قیمت ہو گی ۔فرض کیا ایک یونٹ ایک روپے کا ہے پھر ہر روز یونٹ کی قیمت بدلتی رہے گی میں انٹرنیٹ پر اس اکائونٹ میں اپنے یونٹ کی قیمت اگر چاہوں تو دیکھ سکوں گا ۔

یہ پنشن فنڈ 60سال کی عمر تک چلتا رہے گا اور پھر میں اس رقم کو حاصل کرسکتا ہوں ، اگر میں 60سال کی عمر سے پہلے اس رقم کو حاصل کرنا چاہوں تو یہ مجھے اجازت نہیں ہو گی ۔میں صرف ایک ہی صورت میں یہ رقم حاصل کر سکتا ہوں کہ اگر میں pkliچھوڑ دیتا ہوں یا استعفی کی صورت میں ۔استعفی کے بعد یہ میرا اختیار ہو گا کہ میں وہ رقم نکلوا لوں یا اس پنشن فنڈ کو جاری رکھوں (ہر ماہ رقم جمع کروانے کی صورت میں )

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ پراویڈنٹ فنڈ اختیاری ہے اس لیے اس پر ملنے والا نفع سود کے شبہ سے خالی نہیں اس لیے یاتو آپ شروع ہی میں اس نفع کو نہ لینے کی درخواست دیدیں یا درخواست نہ دیں لیکن محکمہ سے یہ رقم وصول نہ کریں یا وصول کریں لیکن خود استعمال نہ کریں اور آگے صدقہ کر دیں ،اور خودبھی استعمال کریں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔باقی یہ فنڈ ،پراویڈنٹ فنڈ ہی رہے یا پنشن فنڈ میں تبدیل ہو جائے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔

جواہر الفقہ میں (278/3)ہے:

’’احکام مذکورہ کی جوعلت اوپر ذکر کی گئی ہے اس کی رو سے جبری اور اختیاری دونوں قسم کے پراویڈنٹ فنڈ کا حکم یکساں معلوم ہوتا ہے تنخواہ محکمہ کے جبر سے کٹوائی گئی ہو یا اپنے اختیار سے ،دونوں صورتوں میں اس زیادہ رقم کا لینا سود میں داخل نہیں لیکن اختیاری ہونے کی صورت میں تشبہ بالربو بھی ہے اور خطرہ بھی کہ لوگ اس کو سود خوری کا ذریعہ بنالیں اس لیے اختیاری صورت میں اس پر جو رقم بنام سود دی جاتی ہے اس سے اجتناب کیاجائے خواہ محکمہ سے وصول نہ کر ے یا وصول کرکے صدقہ کردے ‘‘

فتاوی عثمانی 278/3میں ہے:

سوال :        پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود دیا جاتا ہے وہ لینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب:       احتیاط تو اسی میں ہے کہ پراویڈنٹ فنڈ کے طور پر جو رقم ملازم نے اپنے اختیار سے کٹوائی ہے اس پر ملنے والی زیادہ رقم کوصدقہ کردیا جائے۔ لیکن شرعی نقطہ نظر سے یہ زیادہ کی رقم سود کے حکم میں نہیں ہے،اس لیے اسے اپنے استعمال میں لانے کی گنجائش ہے۔

فتاوی عثمانی(308/3)میں ہے:

جواب: پراویڈنٹ فنڈ پر جو زیادہ رقم محکمے کی طرف سے دی جاتی ہے وہ شرعا سود نہیں ہے۔لہذا اس کا لینا اور استعمال میں لانا جائز ہے۔جبری اور اختیاری فنڈ دونوں کا حکم یہی ہے ۔البتہ جو رقم اپنے اختیار سے کٹوائی گئی ہو اس پر ملنے والی زیادتی کواحتیاطا صدقہ کردیں تو بہتر ہے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved