• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

ضرورت پڑنے پر مسجد میں جگہ شامل کرنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

مندرجہ ذیل صورت میں  ہماری راہنمائی فرمائیں  کہ جامع مسجد بیت المکرم ریوازگارڈن لاہور 1972میں  نئی آبادی میں  الاٹمنٹ ہوئی جگہ پر تیارہوئی۔مسجد کے جنوب میں  اس زمانے میں  تانگہ اسٹینڈ کیلئے تقریبا 22مرلہ جگہ مختص کی گئی تھی جو کچھ عرصہ بعد تانگوں  کا وجود ختم ہونے کی بناء پر ایک چھوٹا سا پارک کی شکل اختیار کر گیا جس کی دیکھ بھال کا خرچہ تاحال مسجد انتظامیہ برداشت کرتی آرہی ہے۔نیز اس پارک میں  اہل علاقہ کے جنازے بھی اداکیئے جاتے ہیں ۔اس جگہ میں  سے 10 مرلہ کی جگہ مسجد کی ضروریات کے پیش نظر لینے کی درخواست 1975 میں  متعلقہ محکمے کو دی گئی کہ مسجد کو الاٹ کردی جائے یا بیچ دی جائے تاکہ امام ومؤذن صاحبان کی رہائش اور وضو خانہ وبیت الخلاء تعمیر کی جاسکیں  جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ شدید ضرورت اختیار کرگئی تھیں ۔محکمہ ہاؤسنگ سے بیسیوں  مراسلات ہوئے جس میں  انہوں  نے قانونی مجبوریوں  کا ذکر کرتے ہوئے باضابطہ اجازت نہ دی۔ 1981 میں  محکمہ نے ایک لیٹر جاری کیا کہ آپ نفع نقصان سے بچتے ہوئے صرف زمین کی قیمت اداکرکے لے لیں ۔( اصل لیٹر موجود ہے)

لیکن مرور زمانہ سے اب معلوم نہیں  کہ اس وقت کی انتظامیہ نے زمین کیوں  نہیں  خریدی ؟تاہم اس کے بعد اب سے تقریبا 35یا36سال پہلے اہل علاقہ اور انتظامیہ نے مسجد سے ملحقہ اس جگہ میں  سے دس مرلے جگہ پر تعمیرات کرلیں  جن میں  امام مسجد کی رہائش بیت الخلاء وغیرہ شامل ہیں  جس پر محکمہ نے کسی قسم کی کاروائی نہ کی بلکہ خاموش رہا۔درمیان میں  حسب ضرورت تعمیرات میں  ردوبدل بھی ہوتارہا لیکن محکمہ کی طرف سے کبھی اعتراض نہ کیا گیا۔اب موجودہ تعمیر خستہ ہونے اور کچھ مسجد میں  نمازیوں  کی مزید گنجائش پیداکرنے کیلئے موجودہ انتظامیہ کے مشورے سے نئی تعمیر شروع ہوئی جس میں  تین صفوں  کے علاوہ رہائش وضوخانہ اور بیت الخلاء شامل ہیں  اور ان تین صفوں  میں  بطورمصلی (نہ کہ شرعی مسجد)چالیس سے پچاس افراد جمعہ عیدین اور جنازے کے مجمع کے زیادہ ہونے کی وجہ سے جنوبی جانب پارک(جنازگاہ)میں  بننے والی صفوں  کے ساتھ اتصال کیلئے نکالی جارہی ہیں ۔

چند افراد کو اس صورت میں  یہ اشکال ہے کہ یہ جگہ چونکہ سرکاری ہے مسجد کی ملکیت نہیں  ہے اس لیے اس جگہ پر نماز کا نتظام کرنا جائز نہیں  ہے اور انہوں  نے اس تعمیری کام کو روکنے کے لیے متعلقہ محکمے کے افراد پر بھی کسی ذریعے سے زور دیا ہوا ہے کہ وہ اس تعمیری کام کو روکیں  ورنہ انہیں  ان کی نوکریوں  سے معطل کردیا جائے گا۔ اور یہ لوگ دیگر افراد کے ذہنوں  میں  بھی یہ بات ڈال رہے ہیں  کہ یہ تعمیر جائز نہیں ۔جس کا اظہار برملا طورپر محکمہ کے ہر فرد نے کیا ہے کہ آپ کے علاقہ کے لوگ شکایات کررہے ہیں ۔(محکمہ کی اکثریت اسی مسجد میں  جمعہ ودیگر نمازیں  اداکرتے ہیں ۔)اسی وجہ سے محکمہ نے نوکریوں  کے جانے کے ڈر سے صرف تعمیر سے روک دیاہے لیکن بقیہ موجودہ تعمیرات کو گرانے کا کسی قسم کا عندیہ نہیں  دیا۔اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے راہنمائی فرمائیں  کہ:

(۱) ضرورت کے پیش نظر ہمارا اس سرکاری اراضی پر(جو کہ تا حال کسی دوسرے استعمال میں  نہیں  ہے) وضوخانہ، بیت الخلاء ، اتصال کیلئے صفیں  ، اور رہائش گاہیں  بناناجائز ہے یانہیں ؟

(۲) اور جو لوگ اس میں  رکاوٹیں  ڈال رہے ہیں  ان کا رکاوٹ ڈالنا شرعا کیسا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی کی شخصی اورذاتی جگہ کو مالک کی اجازت اور رضامندی کے بغیرمسجد میں  شامل کرنا جائز نہیں  تاہم جو جگہ کسی کی شخصی اور ذاتی ملکیت میں  نہ ہو بلکہ سرکاری جگہ ہو اور سرکارنے وہ جگہ مفاد عامہ کے لیے مختص کی ہو تو ایسی جگہ کو یا اس میں  سے کچھ کو ضرورت کے وقت مسجد یا ضروریات مسجد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کی وجہ سے جس کام کے لیے وہ جگہ مختص کی گئی تھی اس میں  تنگی نہ ہو،جیسا کہ فقہائے کرام نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ مسجد کی ضرورت کے پیش نظر شارع عام میں  سے کچھ حصہ مسجد میں  شامل کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ ایسا کرنے سے راہگیروں  کو دشواری نہ ہو اور اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ مسجد بھی مفاد عامہ کے لیے ہے اور شارع عام بھی مفاد عامہ کے لیے ہے ۔

(۱) مذکورہ صورت میں  بھی سرکاری طور پرجو جگہ تانگہ اسٹینڈ کے لیے مختص کی گئی تھی جو کہ مفاد عامہ کا ہی ایک کام تھا اور کافی عرصے سے یہ جگہ اس کام (تانگہ اسٹینڈ) کے لیے استعمال بھی نہیں  ہو رہی تھی اور نہ ہی آئندہ استعمال کے امکانات ہیں  اور کافی عرصے سے یہ جگہ ضروریات مسجد کے استعمال میں  بھی ہے اور اس پر کسی کو کو اعتراض نہ تھااورمسجد یا ضروریات مسجد بھی مفاد عامہ ہی کے کام ہیں ۔ لہذا اس جگہ میں  سے ضروریات مسجدکے لیے کچھ جگہ لینا جائز ہے اور اس جگہ میں  بغیر کسی کراہت کے نماز درست ہے۔

(۲) جب انتظامیہ کی اکثریت اس کو مسجد کی ضرورت محسوس کررہی ہے تو بعض افراد کا اس میں  رکاوٹ ڈالنا جائز نہیں۔

وفي الدر المختار (449/6)

(جعل شيء )جعل الباني شيأ(من الطريق مسجدا)لضيقه ولم يضربالمارين (جاز)لانهما للمسلمين ۔

وفي رد المختار من التاتارخانية(45/6)سئل ابو القاسم عن اهل مسجد اراد بعضهم ان يجعلوا المسجد رعبة والرعبة مسجدا اويتخذوا له بابا او يحولوا بابه عن موضعه وابي البعض ذلک قال :اذا اجتمع اکثرهم وافضلهم ليس للاقل منعهم اه

وفي الهندية(427/2)

قوم بنوا مسجدا واحتاجوا الي مکان ليتسع المسجد اخذوا من الطريق وادخلوا في المسجد ان کان يضر باصحاب الطريق لايجوز وان کان لايضر بهم ۔۔۔لايکون به باس کذا في المضمرات وهو المختار کذا في خزانة المفتين

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved