• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ زمین کے ایک حصہ کو وقف کرنا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں  مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں  کہ ایک مشترکہ زمین کے ایک مخصوص حصہ کو باقی ورثاء کے رضامندی کے بغیر تقسیم سے پہلے مدرسہ کے لیے وقف کیا اور حصہ بھی زمین کا فرنٹ والا حصہ ہے اور ظاہر ہے کہ اس فرنٹ والے حصہ میں  تمام شرکاء برابر کے شریک ہیں  ۔تو کیا یہ وقف صحیح ہے؟ اور قابل نتفیذ ہے اور شریعت میں  اس کا کیا حکم ہے ؟او ر ظاہر ہے کہ وقف کرنے والے شخص کا غصہ غیر متعین ہے اور واقف نے متعین حصہ کو وقف کیا ہے زیادتی کے ساتھ ورثاء کی اجازت کے بغیر اور بغیر کسی عوض ورثاء کے۔اور یہاں  پر ورثاء سے مراد بہن بھائی ہیں  اور بہن بھائیوں  سے پوچھے بغیر واقف نے بیماری کی حالت میں  وقف کیا اور اسی بیماری میں  واقف فوت بھی ہوگیا ۔تو کیا اس کا وقف کرناجائز ہے ؟شریعت کی روشنی میں  راہنمائی فرمائیں ۔

نوٹ:         واقف آخری حالت میں  بوڑھے بھی تھے اورٹی بی کے مریض بھی تھے اور تنہائی میں  بھی رات کو اپنے ساتھ باتیں  بھی کرتا تھا اور اسی بیماری میں  فوت ہو گیا۔

وضاحت مطلوب ہے:

۱۔ مذکورہ جگہ اس وقت کس حال میں  ہے؟

۲۔ کیا مدرسہ وہاں  بن گیا ہے؟

۳۔            نیز مرحوم کے ورثاء کا اس بابت کیا موقف ہے؟

۴۔            دیگر شرکاء اب اس کو باقی رکھنے پر راضی ہیں  یا نہیں ؟

۵۔            سائل کون ہے؟مدرسے والے یا واقف کے لواحقین؟

جواب وضاحت:

۱۔۲           مذکورہ جگہ ابھی خالی ہے اس پر کچھ بھی تعمیر نہیں  کیاگیا۔

۳۔            ورثاء کا موقف یہ ہے کہ ہمارا اس جگہ میں  حصہ ہے وہ ہمیں  دیا جائے(مرحوم کے بہن ،بھائی)

۴۔            اس جگہ کو وقف کرنے پر کوئی بھی راضی نہیں  ۔ صرف انہوں  نے اپنی طرف سے وقف کی تھی۔

۵۔            سائل مرحو م کا بیٹا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  دو مسئلے محتاج جواب ہیں :

۱۔ سائل کے والد نے اپنے مرض وفات میں  وقف کیا ہے۔

۲۔ دیگر شرکاء کی اجازت ورضامندی کے بغیر مشترکہ زمین کا ایک مخصوص حصہ وقف کیا ہے۔مرض وفات میں  وقف کا حکم وصیت کا ہوتا ہے چنانچہ وقف کردہ چیز اگر میت کے کل ترکہ کے ایک تہائی تک ہو تو معتبر ہے ۔ایک تہائی سے زائد ہو تو ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتا ہے۔مذکورہ صورت میں  سائل کے والد کا اس متعین جگہ میں  تناسبی حصہ مدرسے کے لیے وصیت ہو گا اور وصیت والے احکام اس پر لاگو ہوں  گے۔

في الاسعاف فے احکام الاوقاف( بحواله اسلام کا نظام اوقات)

الوقف في مرض الموت لازم ولکنه کالوصية في حق نفوذه من الثلث کالتدبير المطلق ۔۔۔فاذا وقف المريض ارضه او داره في مرض موته يصح في کلها ان خرجت ثلث ماله وان لم تخرج واجازته الورثة فکذالک والاتبطل فيمازاد علي الثلث۔

مرحوم نے مشتر کہ زمین کا ایک متعین حصہ دیگر شرکاء کی اجازت ورضامندی کے بغیر وقف کیا ہے یہ مشاع کا وقف ہے جو امام ابویوسفؒ کے نزدیک جائز ہے اس لیے مرحوم کا اس متعین حصے میں  جتنا تناسبی حصہ بنتا ہے اس کے بقدر وقف درست ہے اور دوسرے شرکاء کا اس متعین حصے میں  جتنا تناسبی حصہ بنتا ہے اس کے بقدر وقف درست نہ ہو گا۔

في الفتاوي الکامليةبحواله (ايضا)

سئلت ماهو المعمول به في وقف المشاع فالجواب ان وقف المشاع فيه خلاف جوزه ابويوسف ومنعه محمد ؒ واختلف التصحيح وقد نقل الکفوي الخلاف ثم قال والمتاخرون افتوا بقول ابي يوسف ؒ انه يچوز وهو المختار وعمل القضاة والمفتيين في بلادنا علي قول ابي يوسفؒ ۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند(155/13) میں  ہے :

امام ابویوسف ؒ کے نزدیک وقف مشاع بقدر حصہ واقف صحیح ہے امام محمدؒ ناجائز فرماتے ہیں  اور قول امام ابویوسف مفتی بہ اور راجح ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved