• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بھاڑ میں گئی نماز سے ایمان نکاح کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

شوہر نے ازدواجی تعلق کے لیے بیوی کو بلایا وہ اوپر کی منزل میں کپڑے دھو رہی تھی جس کی وجہ سے آنے میں ذرا تاخیر ہو گئی بیوی کے آنے پر کافی دیر اسے برا بھلاکہتا رہاوہ خاموشی سے سنتی رہی ۔آخر بیوی نے کہا عصر میں وقت کم ہے میں نماز پڑھ لوں کیونکہ سوا چار کے قریب وقت تھا جواب میں شوہر نے کہا کیا کرنا ہے نماز پڑھ کر چھوڑوں گا نماز ،نہیں پڑھوں گا نمازلیکن تھوڑی دیر بعد نماز ادا کرلی ۔شاید یہ بھی کہا بھاڑ میں گئی نماز ۔مذکورہ الفاظ کہنے سے نکاح پر کیا اثر ہو گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح ختم نہیں ہوا بلکہ برقرار ہے ۔

توجیہ:

سوال میں ذکر کردہ پہلے الفاظ (یعنی کیا کرنا ہے نماز پڑھ کر ،چھوڑوں گا نماز ،نہیں پڑھوں گا نماز)میں نماز نہ پڑھنے سے متعلق ارادے کا اظہار ہے جو کفر نہیں ہے چنانچہ عالمگیر ی میں ہے :

الفتاوى الهندية (2/ 268)

وقول الرجل لا أصلي يحتمل أربعة أوجه أحدها لا أصلي لأني صليت والثاني لا أصلي بأمرك فقد أمرني بها من هو خير منك والثالث لا أصلي فسقا مجانة فهذه الثلاثة ليست بكفر والرابع لا أصلي إذ ليس يجب علي الصلاة ولم أؤمر بها يكفر ولو أطلق وقال لا أصلي لا يكفر لاحتمال هذه الوجوه۔

البتہ آخری جملہ’’بھاڑ میں گئی نماز ‘‘میں اگر چہ کفر کا احتمال ہےمگراولا تو  خاوند کی جانب اس جملہ کی نسبت یقینی نہیں۔ثانیا شوہر نے یہ جملہ کفریا نماز کی توہین کے ارادے سے کہا ہو یہ بھی یقینی نہیں بلکہ بعض اوقات  ایسا جملہ غصے میں بے اختیار نکل جاتا ہے اس لیے اس جملے کی وجہ سے بھی نکاح ختم ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔

لان بطلان النکاح فرع بطلان الایمان ۔

تاہم احتیاطا تجدید ایمان کے ساتھ تجدید نکاح بھی کرلیاجائے تو اچھا ہے ۔

تنبیہ:

شوہر کو چاہیے کہ آئندہ اس طرح کے الفاظ بولنے سے پرہیز کرے۔

فی الدر المختار:6/354

واعلم انه لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامه علی محمل حسن او کان فی کفره خلاف ولوروایة ضعیفة ۔

حاشية ابن عابدين (4/ 229)

 وهذا لا ينافي معاملته بظاهر كلامه فيما هو حق العبد وهو طلاق الزوجة وملكها لنفسها بدليل ما صرحوا به من أنهم إذا أراد أن يتكلم بكلمة مباحة فجرى على لسانه كلمة الكفر خطأ بلا قصد لا يصدقه القاضي وإن كان لا يكفر فيما بينه وبين ربه تعالى فتأمل ذلك وحرره نقلا فإني لم أر التصريح به نعم سيذكر الشارح أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح اه وظاهره أنه أمر احتياط ۔

فی خلاصة الفتاوی:4/382

الجاهل اذا تکلم بکلمة الکفر ولم یدر انها کفر قال بعضهم لایکون کفرا ویعذر بالجهل وقال بعضهم یصیر کافرا ومنها انه من اتی بلفظة الکفر وهو لم یعلم انها کفر الا انها اتی بها عن اختیار یکفر عند عامة العلماء خلافا للبعض ولایعذر بالجهل اما اذا اراد ان یتکلم فجری علی لسانه کلمة الکفر والعیاذ بالله من غیر قصد لایکفر ۔

امدادالاحکام صفحہ 140 جلد نمبر 1 میں ہے:

سوال :زید کی بی بی حمل سے تھی اور ایام قریب تھے اور گرانی اور بوجھ کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں تکلیف ہوتی تھی ،اس وجہ سے نماز اس کی چند روز سے چھوٹ گئی تھی۔ زید کو جب اس کی نماز قضا ہو جانے کا حال معلوم ہوا تو بیوی سے کہا کہ کیا نماز قضا کرتی ہے ،انہوں نے اس پر کہا اس لفظ سے کہ’’ماربڑھنی اٹھ بیٹھ جاتا نہیں پار لگتا نہیں ‘‘مار بڑھنی کا ترجمہ یہ ہے کہ جھاڑو مار، ہندی میں جھاڑو کو بڑھنی کہتے ہیں ،عورتوں کا اکثر یہ دستور ہے کہ بعض باتوں پر لفظ جھاڑو مارکہہ دیتی ہیں۔ مطلب عورت کے کہنے کا یہ ہے کہ اس وقت تکلیف کی وجہ سے پڑھا نہیں جاتا مگر اپنے محاورے کی وجہ سے جھاڑو مارکا لفظ کہہ دیا اور ایک مرتبہ کام کے تردد میں تھی تو یہ لفظ بھی عورت نے تردد کی وجہ سے کہا کہ ابھی نماز پڑھنا ایک روگ ہے ،روگ بیماری کو کہتے ہیں ،یہ بھی عورتوں کی عادت ہے کہ ہر ہر باتوں میں اکثر روگ کہا کرتی ہے، تو اس لفظ کے کہنے کا مطلب عورت کا یہ ہے کہ ابھی نماز پڑھنا بھی ایک بکھیڑا اور بوجھ باقی ہے ،تو کیا ان باتوں کے کہنے سے ایمان میں نقصان آیا اور نکاح ٹوٹ تو نہیں گیا؟

جواب: صورت مسئلہ میں عورت کا ایمان زائل نہیں ہوا نہ نکاح باطل ہوا، کیونکہ عورتیں ایسے الفاظ اپنے محاورے اور عادت کے طور پر استعمال کرتی ہیں کفر کی نیت سے نہیں استعمال کرتی ۔نیز بعض دفعہ جھاڑو مار کے لفظ سے اپنے آپ کو کوسنا مقصود ہوتا ہے، اسی طرح نماز کو روگ اور بوجھ کہنے سے اپنے اوپر بوجھ کا ہونا مقصود ہوتا ہے، اس لئے اس سے کفر لازم نہیں آیا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved