• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کردعا کرنے کا حکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال : مسائل بہشتی زیور میں یہ مسئلہ لکھا ہے :

کہ تعزیت میں ہاتھ اٹھانا جائز نہیں ،یعنی تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز نہیں ۔

جبکہ امام اہل سنت مولانا سرفراز صفدرخان صاحب ؒ نے راہ سنت (278)میں لکھا ہے کہ:

تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے (اور لکھا ہے )کہ آنحضرت ﷺ نے رفع یدیہ ثم قال اللھم اغفر لعبید ابن عامر ؓ۔۔(بخاری ،جلد 2)

تو محترم مفتی صاحبان نے بھی بدعت لکھا ہے ۔چنانچہ احسن الفتاوی میں مفتی رشید صاحب ؒ نے بدعت لکھا ہے ؟

اب محترم مفتی صاحبان ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ تعزیت کے وقت لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں اور سب لوگ اکٹھے دعا مانگتے ہیں اورہاتھ اٹھاتے ہیں،یہ ٹھیک ہے یا نہیں ؟ہمارے لیے وضاحت فرمائیں کہ تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا اور چیز ہے اور مطلقا میت کے لیے ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا اور چیز ہے ۔راہ سنت میں جوحدیث بحوالہ بخاری شریف مذکور ہے اس سے مطلقا میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ثبوت ملتا ہے نہ کہ تعزیت کے وقت ، کیونکہ آپ ﷺنے مذکورہ دعا تعزیت کے موقع پر نہیں کی اور مولانا سرفراز خان صفدر ؒ نے بھی اس حدیث سے اسی کو ثابت کیا ہے ۔ چنانچہ راہ سنت میں ہے :

’’فائدہ : میت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی جائز ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے رفع یدیہ ثم قال اللهم اغفر لعبید ابن عامر ۔بخاری 619/2)

حضرت عبید ابو عامرؓ کے لیے ان کی وفات کی خبر سن کر ہاتھ اٹھا کران کے لیے دعا مانگی تھی (راہ سنت:278) ‘‘

حضرت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ نے تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھاکر دعا کے جواز کو حضرت شاہ محمد اسحق صاحبؒ کے حوالے سے ذکر کیا ہے نہ کہ حدیث کے حوالے سے ۔چنانچہ راہ سنت (278)میں ہے :

’’حضرت شاہ محمد اسحق صاحب ؒ۔۔۔فرماتے ہیں کہ تعزیت کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ظاہرا جائز ہے الخ‘‘

حضرت شاہ اسحق صاحبؒ نے جو بات کہی ہے احسن الفتاوی میں اس کا جواب دیدیا گیاہے ۔

لہذا ہماری تحقیق میں تعزیت کے موقعہ پر ہاتھ اٹھاکرد عا مانگناٹھیک نہیں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved