• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

(1)جمعہ کی دوسری اذان کی تحقیق(2)ناخن کاٹنے کاطریقہ(3)نماز جمعہ کے بعد کتنی رکعتیں پڑھی جائیں؟(4)ننگے سر اورنخنے چھپاکرنماز پڑھنے کاحکم (5)جماعت ثانیہ کی ایک صورت کا حکم

استفتاء

۱۔ جمعے کے دن جو دوسری اذان دی جاتی ہے اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ یہ درست ہے یا نہیں؟کیونکہ  بعض لوگ صرف ایک اذان دیتے ہیں دوسری اذان کو وہ درست نہیں سمجھتے ؟

۲۔        ناخن کاٹنے کا کوئی سنت طریقہ ہے  تو اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں؟

۳۔       جمعے کے دن کچھ لوگ فرض پڑھ کے نکل جاتے ہیں اور کہتے ہیں باقی رکعتیں کہیں سے ثابت نہیں۔ اس بارے میں بھی  رہنمائی فرمائیں؟

۴۔       بعض لوگ ننگےسرہوتے ہیں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھتے ہیں اور پھر اسی طرح نماز پڑھتے ہیں اس کے بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا ان کا اس طرح نماز پڑھنا درست ہے؟

۵۔       کیامسجد میں مقامی لوگ دوسری جماعت کروا سکتے ہیں؟اس کے بارے میں  رہنمائی فرمائیں

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے زمانے میں جمعہ کی دوسری اذان نہیں تھی ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں جب آبادی بڑھ گئی تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے دوسری اذان دینے کا حکم دیا اور چونکہ دوسری اذان خلیفہ راشدکےحکم سے شروع ہوئی تھی اور امت کو خلفائےراشدین کی پیروی کا حکم خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیاہے ،اس لئے دوسری اذان دینا دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی ہی پیروی ہے۔ جو لوگ دوسری اذان نہیں دیتے وہ گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل پیرا نہیں ہیں۔

فی البخاری124/1

عن الزهری قال سمعت سائب بن یزید یقول ان الاذان یوم الجمعة کان اوله حین یجلس الامام یوم الجمعة علی المنبر فی عهد رسول الله وابی بکر وعمر فلما کان فی خلافة عثمان وکثروا امر عثمان یوم الجمعة بالاذان الثالث فاذن به علی الزوراء فثبت الامر علی ذلک۔

فی فتح الباری 56/3

تواردت الشراح علی ان معنی قوله (الاذان الثالث)ان الاولین الاذان والاقامة۔

فی ابن ماجة99

علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المهدیین عضواعلیها بالنواجذوایاکم والامور المحدثات فان کل بدعة ضلالة۔

فی المعارف السنن397/4

ثم هذا الاذان الذی زاده عثمان رضی الله عنه وان لم یکن فی عهدالنبوة لکن لایقال انه بدعة فانه من مجتهدات الخلیفة الراشدقال فی العمدة۔۔۔۔۔باجتهاد عثمان وموافقة سائر الصحابة له بالسکوت وعدم الانکار فصاراجماعا سکوتیا۔۔۔۔علاانه ورد فی الحدیث علیکم بسنتی وسنة الخلفاءالراشدین المهدیین فهذا یؤید القول بانه لیس ببدعة۔

فی مرقاة المفاتیح 495/3

ثم رای ان یجعله اذانا علی مکان عال ففعل واخذالناس بفعله فی جمیع البلاد اذ ذاک لکونه خلیفة مطاعا۔

2۔ ناخن کاٹنے کے طریقے کے بارے میں کوئی خاص حدیث تو منقول نہیں البتہ متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھے کام میں داہنی  جانب سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پسند کو سامنے رکھتے ہوئے علماء نے ناخن کانٹےکا مستحب طریقہ یہ بیان کیا ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کر کے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے پر ختم کرے پھر بائیں ہاتھ کی چھنگلیا یعنی چھوٹی انگلی سے شروع کر کے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے پرختم کرے پھر دائیں پاؤں کی چھنگلیا یعنی چھوٹی انگلی سے شروع کرکے بائیں پاؤں کی چھنگلیا یعنی چھوٹی انگلی پر ختم کرے۔

عمدة القاری46/3

کان یحب التیامن فی کل شیئ حتی فی الترجل والانتعال

فی البخاری29/1

عن عائشة رضی الله عنها کان النبیﷺ یعجبه التیمن فی تنعله وترجله وطهوره

 فی شانه کله۔

فی احیاء علوم الدین 166/1

ولم اری فی الکتب خبرامرویا فی ترتیب قلم الاظفار ولکن سمعت انه ﷺ بدا بمسبحته الیمنی وختم بابهامه الیمنی وابتدا فی الیسری بالخنصر الی الابهام ۔ ولماتاملت فی هذا خطر لی من المعنی مایدل علی ان الروایة فیه صحیحة اذمثل هذا المعنی لاینکشف ابتداء الا بنور النبوة واما العالم ذوالبصیرة فغایته ان یستنبط من العقل بعد نقل الفعل الیه واما اصابع الرجل فالاولی عندی ان لم یثبت فیها نقل ان یبتدا بخنصر الیمنی ویختم بخنصر الیسری کما فی التخلیل۔

شرح النووی علی مسلم 166/1

ویستحب ان یبدا بالیدین قبل الرجلین فیبدا بمسبحة یده الیمنی ثم الوسطی ثم البنصر ثم الخنصر ثم الابهام ثم یعود الی الیسری فیبدا بخنصرها ثم ببنصر ها الی آخر ها ثم یعود الی الرجل الیمنی فیبدا بخنصرها ویختم بخنصر الیسری

(فتح الباری536/11)

ولم یثبت فی ترتیب الاصابع عند القص شیئ

3۔ نماز جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھنا احادیث سے ثابت ہے لہذا یہ کہنا غلط ہےکہ جمعہ کے بعد کی رکعتیں کہیں سے ثابت نہیں۔

فی شرح معانی الاثار 210/1

عن ابی عبد الرحمن قال علم ابن مسعود رضی الله عنه الناس ان یصلو بعد الجمعة اربعا فلما جاء علی بن ابی طالب علمهم ان یصلو ستا

ترجمہ: ابو عبدالرحمن سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کو جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھنے کی تعلیم دی جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے تو انہوں نے چھ رکعت پڑھنے کی تعلیم دی۔

(ترمذی231/1)

وروی عن علی رضی الله عنه : انه امر ان یصلی بعد الجمعة رکعتین ثم اربعا

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ آدمی جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھےپهرچار رکعتیں پڑھے۔

عن ابی عبدالرحمن عن علی انه قال من کان مصلیا بعد الجمعةفیصل ستا۔

ترجمہ:حضرت  علی ؓ سے مروری ہے کہ جو کوئی جمعہ کے بعد (نفل)نماز پڑھے تو وہ چھ رکعتیں پڑهے۔

4۔ محض سستی اور لاپرواہی کی وجہ سے ننگے سرنماز پڑھنا خلاف ادب اور مکروہ ہے ۔البتہ شلوار کو ٹخنوں سے نیچے رکھتے ہوئے نماز پڑھنے والے کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ ایسے آدمی کی نماز قبول نہیں،لہذا شلوار کو ٹخنوں سے نیچے رکھتے ہوئے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔

چنانچہ ابو داؤد جلد نمبر 1 صفحہ 103میں ہے:

لایقبل صلوة رجل مسبل ازاره۔

ترجمہ: اس آدمی کی نماز قبول نہیں کی جاتی جس کا ازار یعنی تہبند اس کے ٹخنوں سے نیچے ہو۔

فی البخاری:56/1

قال الحسن کان القوم یسجدون علی العمامة والقلنسوة ویداه فی کمه

ترجمہ:حضرت حسنؒ  فرماتے ہیں قوم (مراد صحابہؓ ہیں)سجدہ کرتی تھی عمامہ اور ٹوپی پر اس حال میں کہ ان کے ہاتھ ان کی آستینوں میں ہوتے تھے۔

فی الشامی491/1

وصلوته حاسرا ای کاشفا راسه للتکاسل ولاباس به للتذلل واما لاهانة بها فکفرقوله ( للتكاسل ) أي لأجل الكسل بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمرا مهما في الصلاة فتركها لذلك وهذا معنى قولهم تهاونا بالصلاة وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار لأنه كفر

فی مرقاة المفاتیح:491/2

واطالة الزیل مکر وهة عندابی حنیفة والشافعی رحمهماالله فی الصلوة وغیرها ومالک یجوز ها فی الصلوة دون المشی لظهورالخیلاء فیه

5۔ مسجد میں مقامی لوگوں کا دوسری جماعت کروانا صحیح نہیں، کیونکہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت نکل گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بجائے اپنے گھر میں جماعت کروائی اگر مسجد میں دوسری جماعت کروانا درست ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں جماعت کرواتے ،کیونکہ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب زیادہ ملتا۔ حضرات صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا معمول بھی یہی تھا کہ اگر ان کی جماعت نکل جاتی تو وہ مسجد میں انفرادی نماز پڑھتے یعنی جماعت نہ کرواتے۔

حاشية ابن عابدين (1/ 395)

قوله ( وتكرار الجماعة ) لما روى عبد الرحمن بن أبي بكر عن أبيه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج من بيته ليصلح بين الأنصار فرجع وقد صلى في المسجد بجماعة فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم في منزل بعض أهله فجمع أهله فصلى بهم جماعة ولو لم يكره تكرار الجماعة في المسجد لصلى فيه

فی معارف السنن:2/288

قال الراقم ویعارضه ما روی عن انس ان اصحاب رسول الله کانو اذا فاتتهم الجماعة صلوا فی المسجد فرادی کما فی البدائع وحدیث انس هذا وان لم نطلع علیه غیر ان ابن ابی شیبة عنده عن الحسن عن الصحابة انهم کانوایصلون فرادی کما حکاه شیخنا رحمه الله فی تعلیقاته علی آثار السنن للنیموی والله اعلم

(شرح سنن ابی داود للعینیؒ،جلد3ص:65)

وروی عن انس ان اصحاب رسول الله کانوا اذا فاتتهم الجماعة فی المسجد صلوا فی المسجد فرادی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved