- فتوی نمبر: 14-220
- تاریخ: 10 مئی 2019
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۱۔ بکر صاحب نصاب ہے لیکن پاکستان میں موجود نہیں بیرون ملک میں ہے زید نے اس کی طرف سے بڑے جانور میں اس کو بتائے بغیراس کا حصہ ڈالا تو ایسی صورت میں بکر کی قربانی ادا ہو گی یا نہیں ؟
وضاحت مطلوب ہے :کہ کیا بکر زید کا رشتہ دار ہے ؟اگر ہے تو کیا رشتہ داری ہے ؟اور کیا زید کا بکر کی طرف سے قربانی کرنے کا معمول ہے؟
جواب وضاحت:بکراور زید دونوں بھائی ہیں۔معمول نہیں ہے پہلی دفعہ اس طرح ہوا۔
۲۔ ما قبل صورت میں زید کے ساتھ اور شرکاء کی قربانی درست ہو گی یا نہیں؟
۳۔ اگر بکر صاحب نصاب نہیں اور اس کی اجازت کے بغیر زید نے قربانی کی تو ایسی صورت میں بکر اور تمام شرکاء کی قربانی درست ہو گی یا نہیں؟
۴۔ اگر کسی علاقے میں اپنے متعلقین (بھائی چچا کے بیٹے یا قریبی خاندان والے حضرات وغیرہ)کی طرف سے قربانی کرنا عادت ورواج ہے تو ایسی صورت میں اجازت کے بغیر قربانی ادا ہو گی یا نہیں؟تحقیقی جوا ب دے کر شکریہ کا موقع دیں
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ مذکورہ صورت میں بکرکی قربانی ادا نہیں ہو گی کیونکہ اس کی طرف سے نہ صراحتااجازت ہے اورنہ دلالۃ ،صراحتا اجازت نہ ہونا تو خود سوال میں مذکور ہے اور دالۃ اجازت تب ہوتی جب بکر زید کا قریبی رشتہ دار ہو تا اور زید کا بکر کی طرف سے قربانی کرنے کا معمول ہوتا جبکہ مذکور صورت میں بکر زید کا قریبی رشتہ دار تو ہے لیکن زید کا بکر کی طرف سے قربانی کرنے کا معمول نہیں ہے۔
۲۔ ما قبل کی صورت میں خود زید کی اور دوسرے شرکاء کی قربانی درست ہے۔کیونکہ زید نے جو قربانی بکر کی طرف سے کرنے کی نیت کی تھی وہ بکر کی طرف سے درست نہ ہونے کی صورت میں ایک قول کے مطابق خود زید کی طرف سے درست ہے۔
۳۔ مذکورہ صورت میں اگر زید نے بکر کی طرف سے نفلی قربانی کی نیت سے حصہ ڈالا تو بکر کی قربانی بھی درست ہوگی اور تمام شرکاء کی قربانی بھی درست ہو گی اور اگر زید نے بکر کی طرف سے واجب قربانی کی نیت سے حصہ ڈالا(مثلا زید کو معلوم نہ تھا کہ بکر پر قربانی واجب نہیں)تو اس صورت میں بکر کی قربانی تو نہ ہو گی(بشرطیکہ بکر زید کا قریبی رشتہ دار نہ ہو اور زید کا بکر کی طرف سے قربانی کا معمول نہ ہو )البتہ باقی شرکاء کی قربانی درست ہو جائے گی۔اور وجہ وہی ہے جو دو نمبر کے ذیل میں گذری۔
سوال میں مذکورہ متعلقین کی طرف سے قربانی کرنے کی عادت اور رواج ہے تو قربانی ان کی صریح اجازت کے بغیر بھی درست ہے ورنہ صریح اجازت کے بغیر ان کی طرف سے واجب قربانی درست نہیں۔البتہ نفل قربانی درست ہے۔
الفتاوي الهندية (5/ 302)
ولو ضحي ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية وقال الحسن بن زياد في کتاب الأضحية إن کان أولاده صغارا جاز عنه وعنهم جميعا في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالي وإن کانوا کباراوإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعا لأن نصيب من لم يأمر صار لحما فصار الکل لحما وفي قول الحسن بن زياد إذا ضحي ببدنة عن نفسه وعن خمسة من أولاده الصغار وعن أم ولده بأمرها أو بغير أمرها لا تجوز عنه ولا عنهم قال أبو القاسم رحمه الله تعالي تجوز عن نفسه کذا في فتاوي قاضي خان ۔
حاشية ابن عابدين (6/ 315)
ولو ضحي عن أولاده الکبار وزوجته لا يجوز إلا بإذنهم
وعن الثاني أنهيجوز استحسانا بلا إذنهم ۔بزازية
قال في الذخيرة ولعله ذهب إلي أن العادة إذا جرت من الأب في کل سنة صار کالإذن منهم فإن کان علي هذا الوجه فما استحسنه أبو يوسف مستحسن ۔
امداد الفتاوی(610/3) میں ہے:
خلاصہ یہ ہے کہ اضحیہ واجبہ میں چونکہ دوسرے کے ذمے سے ادائے واجب کا قصد ہوتا ہے وہ تو بدوں اس کی اجازت کے درست نہیں البتہ اپنے متعلقین کی طرف سے بدوں اسکی اجازت کے بھی درست ہے جبکہ ان کی طرف سے قربانی کرنے کی عادت ہو اور اگر قربانی کرنے کی عادت نہ ہو تو ان کی طرف سے بھی قربانی صحیح نہ ہوگی رہا یہ کہ ذابح کی طرف سے ہو جائے گی یا نہیں حسن بن زیادکی روایت یہ ہے کہ ذابح کی طرف سے بھی صحیح نہ ہوگی اور ابو القاسم کا قول یہ ہے کہ ذابح کی طرف سے صحیح ہوجائے گی ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کیونکہ حج عن الغیر میں تصریح ہے کہ غیر کی طرف سے بلا امر کے حج کیا جائے تو وہ اس شخص کی طرف سے یعنی حج کرنے والے کی طرف سے ہوجائے گا اور غیر کو ثواب ملے گا اور اگر دوسرے کی طرف سے تبرعا تطوعا بلا اذن کے قربانی کی جائے تو مطلقا درست ہے خواہ اس کی طرف سے قربانی کی عادت ہو یا نہ ہو اور اس کو عادت کی اطلاع ہو یا نہ ہو کیوں کہ تبرعا عن الغیر میں قربانی ذابح کی ملک پر ہوتی ہے دوسرے کو محض ثواب پہنچتا ہے قربانی اس کی ملک پر نہیں ہوتی‘‘۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved