• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

سورہ نور کی آیت نمبر 26کے متعلق ایک سوال

استفتاء

قرآن پاک کی "سورہ نور آیت نمبر 26 کا ترجمہ ہے "بری عورتیں برے مردوں کے لیے  برے مرد بری عورتوں کے لیے  پاک مرد پاک عورتوں کے لیے پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ،تو کیا کسی عورت کا شوہر بری عادتوں مثلا جوا ،شراب اور بری صحبت ،میں مبتلا ہو تو کیا بیوی  کو اپنا احتساب کرنا چاہیے یا اللہ تعالی کی طرف سے آزمائش سمجھنا چاہیے آیت کی روشنی میں تفصیلاجواب مطلوب ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ ہر برے مرد کی بیوی بری ہوں گی اور ہر بری عورت کا خاوند برا ہوگا بلکہ اس آیت میں ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے کہ بری عورتیں برے مردوں کے لائق ہیں اور برے مرد بری عورتوں کے لائق ہیں اسی طرح نیک عورتیں نیک مردوں کے لائق ہیں اور نیک مرد نیک عورتوں کے لائق ہیں یعنی  ہونا تو یہی چاہیے کہ بری عورتیں برے مردوں کو ملیں یا برے مرد بری عورتوں کو ملیں اور نیک عورتیں نیک مردوں کو اور نیک مرد نیک عورتوں کو ملیں لیکن اس کے خلاف بھی ہو سکتا ہے لہذااس آیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ اگر کسی عورت کا مرد برا ہے تو وہ عورت بھی لامحالہ بری ہو گئی لہذا محض اس وجہ سے کہ کسی عورت کا شوہر بری عادتوں میں مبتلا ہے  اس عورت کو اپنا محاسبہ کرنا ضروری نہیں۔

بیان القران (8/8) میں ہے:

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولَئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

 (اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ) گندی عورتیں گندے لوگوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور ستھری عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور ستھرے مرد ستھری عورتوں کے لائق ہوتے ہیں یہ قاعدہ کلیہ ہے ایک مقدمہ تو یہ ہوا  اور دوسرا مقدمہ ضروریات سے ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز آپ کے لائق اور مناسب ہی دی گئی ہے پس جب آپ ستھرے ہیں تو ضرور اس مقدمہ ضروریہ کے اعتبار سے آپ کی بی بی بھی ستھری ہیں ۔۔۔۔مطلب یہ ہے ۔۔۔۔کہ ہم نے خاص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اس قاعدہ کلیہ کی رعایت ضرور ملحوظ رکھی ہے گو دوسروں کے بارے میں کسی خاص حکمت کی بنا پر اس قاعدہ کی رعایت التزاما نہ  رکھی گئی ہو اور جبکہ مطلب یہ ہے تو ۔۔۔۔یہ لازم نہ ہوگا کہ ہر گندی عورت کا شوہر گندا اور ہر گندےشوہر کی بیوی گندی اور ہر پاک عورت کا خاوند پاک اور ہرپاک مرد کی بیوی پاک ہو پس اس پر اشکال نہ ہوگا کہ بہت سے اچھے مرد ایسے ہیں کہ ان کی بیویاں بری ہیں اور بہت سی اچھی بیویاں ایسی ہیں کہ ان کے خاوندبرے  ہیں کیونکہ حق سبحانہ  تعالی نے یہ تو بتایا ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں مگر یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے ہر جگہ اس قاعدہ کالحاظ بھی رکھا ہے بلکہ خاص جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس قاعدہ کے ملحوظ رکھنے کا اظہار فرمایا ہے۔

تفسیر عثمانی ص (470) میں ہے:

تفسیر: ف ٦  یعنی بدکار اور گندی عورتیں گندے اور بدکار مردوں کے لائق ہیں اسی طرح بدکار اور گندے مرد اس قابل ہیں کہ ان کا تعلق اپنے جیسی گندی اور بدکار عورتوں سے ہو۔پاک اور ستھرے آدمیوں کا ناپاک بدکاروں سے کیا مطلب۔۔۔۔۔

(تنبیہ) آیت کا یہ مطلب تو ترجمہ کے موافق ہوا۔ مگر بعض مفسرین سلف سے یہ منقول ہے کہ ” الخبیثات ” اور ” الطیبات ” سے یہاں عورتیں مراد نہیں۔ بلکہ اقوال و کلمات مراد ہیں۔ یعنی گندی باتیں گندوں کے لائق ہیں۔ اور ستھری باتیں ستھرے آدمیوں کے۔ پاکباز اور ستھرے مرد و عورت ایسی گندی تہمتوں سے بری ہوتے ہیں جیسا کہ آگے (اُولٰىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ  لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ) 24 ۔  النور :26) سے ظاہر ہے یا یوں کہا جائے کہ گندی باتیں گندوں کی زبان سے نکلا کرتی ہیں تو جنہوں نے کسی پاکباز کی نسبت گندی بات کہی، سمجھ لو کہ وہ خود گندے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی ا علم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved