• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قادیانی کےلیے کار خیر میں رقم خرچ کرنے کاحکم اوراس پر ثواب کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سوال :         ۱۔ایک قادیانی نے مجھے کچھ رقم دی اور مجھے اس نے کسی مسجد میں بطور عطیہ دینے کو کہا ،کیا یہ رقم مسجد یا مدرسہ کو بطور عطیہ دے سکتا ہوں ؟

۲۔کیا قادیانی کو اس طرح سے مسجد کی تعمیر کے لیے یا مدرسہ کو بطور عطیہ دینے سے ثواب حاصل ہو گا؟

جواب:        ۱۔اگر کوئی غیر مسلم مسجد کی تعمیر کے لیے یا اس طرح کے کسی دینی کام کے لیے روپیہ دینے کو اپنےعقیدہ میں نیک کام سمجھ کردے اور اس سے یہ خطرہ نہ ہو کہ وہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کو غلط استعمال کرے گا یا ان پر احسان جتلائے گا تو اس کا روپیہ مسجد کے لیے لینا اور اس کا استعمال کرنا جائز ہے اس لیے کہ احناف کے نزدیک کفارکے وقف کی صحت کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ ان کے نزدیک قربت ہو ظاہر ہے کہ مسجد میں خرچ کرنا جیسے مسلمانوں کے نزدیک قربت ہے غیر مسلم جو کچھ مسجدوں میں دیتے ہیں وہ بھی اعتقاداً اس کو قربت سمجھتے ہیں اس لیے ان سے روپیہ وغیرہ مسجد کے لیے لینا مذکورہ بالاشرط کے ساتھ جائز ہے لہذا آپ کو جوقادیانی نے مسجد میں بطور عطیہ کے رقم دینے کےلیے دی ہے آپ اس رقم کو کسی بھی مسجد میں دے دیں ،مدرسہ میں نہیں دے سکتے ۔

فی الشامی:341/4

(قوله وان یکون قربة فی ذاته الخ)فتعین ان هذا شرط فی وقف المسلم فقط بخلاف الذمی لمافی البحر وغیره ان شرط وقف الذمی ان یکون قربة عندنا وعندهم کالوقف علی الفقراء وعلی مسجد القدس بخلاف الوقف علی بیعة فانه قربة عندهم فقط او علی حج او عمرة فانه قربة عندنا فقط فان هذا شرط وقف الذمی فقط لان وقف المسلم لایشترط کونه قربة عندهم بل عندنا کوقفنا علی حج وعمرة۔

۲۔جب قادیانی مسلمان ہی نہیں ہیں تو ان کو مساجد وغیرہ پر خرچ کرنے ثواب نہیں ملے گا۔

کیا مذکورہ فتوی درست ہے ؟ سائل کو یہ اشکال ہے کہ سوال میں مندرجہ حوالہ جات میں بات ذمی کی ہے جبکہ

قادیانی زندیق ہیں یہ کسی مذہب آسمانی کےپیروکار نہیں ہیں بلکہ صرف نفاق کی چادر اوڑھ کرمسلمانوں کو خراب کرنا ان کا مشن ہے ۔کیا انہیں ذمی کا مذکورہ بالاحکم دیا جاسکتا ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جیسے مسلمان کا وقف درست ہے ایسے ہی غیر مسلم کا وقف بھی درست ہے بشرطیکہ غیرمسلم  اسے کار خیر اور باعث خیر وثواب سمجھتا ہو ۔وہ غیر مسلم ذمی ہو یا حربی ہو یا کسی آسمانی مذہب کاپیروکار ہو یا آسمانی مذہب کا ماننے والانہ ہو ۔البتہ مرتد کے بارے میں اختلاف ہے صاحبین کے نزدیک اس کا وقف بھی درست اور فوری نافذ العمل ہے جبکہ امام صاحب کے نزدیک وقف تو درست ہے تاہم فوری نافذ العمل نہیں بلکہ اس مرتد کےانجام کار پر موقوف ہے اگر قتل کردیا گیا یا دارالحرب میں چلاگیا تو کالعدم ہو جائے گا اور اگر مسلمان ہو گیا تو معتبر رہے گا۔

قادیانیوں کی ملکی آئینی حیثیت ذمی کی ہے جبکہ بعض اہل علم کے نزدیک وہ زندیق بھی ہیں اور زندیق مرتد کے حکم میں ہوتا ہے لہذا اگر انہیں ذمی کی حیثیت سے لیا جائے تب تو بالاتفاق وقف درست ہو گا اور اگر زندیق سمجھا جائے تب بھی ان کا وقف تو بالاتفاق درست ہو گا البتہ نفاذ میں اختلاف ہو گا۔

زیر نظر فتوے میں بظاہر ذمی کی حیثیت کو پیش نظر رکھا گیا ہے اگر زندیق والی حیثیت کو بھی پیش نظر رکھا جائے تب بھی صاحبین کے نزدیک علی الاطلاق وقف درست ہے اور امام صاحبؒ کے نزدیک بھی وقف تو درست ہے البتہ نفاذ انجام پر موقوف ہو گا اور  ہمارے ملک میں جب ان کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرلیاگیا ہے تو ان کو قتل نہیں کیا جائے گا لہذا امام صاحب ؒ کے نزدیک بھی ان کاوقف نافذ العمل ہو گا ۔لہذا فقہی حوالے سےتو مذکورہ فتوی درست ہے۔

تاہم غیرت اسلامی کا تقاضا یہ ہے کہ قادیانی سے لی ہوئی مذکورہ رقم اسے واپس کردی جائے اور اسے کسی دینی کام میں خرچ نہ کیا جائے تاکہ کل کلاں کو انہیں یہ کہنے کا موقعہ نہ رہے کہ ایک طرف تو تمہارے علماء ہمارے کفر کا فتوی دیتے ہیں اور ہم سے معاشی ،معاشرتی ،سماجی بائیکاٹ کا فتوی دیتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے پیسے اپنے مقدس مقامات مساجد وغیرہ پر خرچ کرنے کے لیے قبول بھی کرلیتے ہیں ۔

فی احکام الاوقاف للخصاف341-

قلت : ارأیت النصرانی اذا وقف ارضا له او دارا له وجعل غلتها تنفق فی مرمة بیت المقدس وفی ثمن زیت لمصابیح وفیما یحتاج الیه قال هذا جائز من قبل ان هذا قربة عندالمسلمین وعندهم ۔قلت:فماتقول فی المجوس هل یکونون فی ذلک بمنزلة النصاری والیهود قال لا احسب ان المجوسی یتقربون بذلک ولایرونه قربة والجملة فی هذا ان کل ماکان قربة عنداهل دین من الادیان وهو عند المسلمین قربة ان ذلک

جائزنافذ علی ماحده الوقف وشرطه

فی الشامی 525/6

قال الرافعی فی حاشیة رد المحتار لافرق بین المرتد والمرتدة فی بطلان وقفها بالردة انما یفرق بینهما لو وقفا فی حالتها فینفذ منها لانها لاتقتل ویتوقف منه عنده وینفذ عندهما۔

وفی الدر المختار :377/6

ویزول ملک المرتد عن ماله زوالا موقوفا فان اسلم عاد ملکه وان مات اوقتل علی ردته او حکم بلحاقه ورث کسب اسلامه وارثه المسلم ولو زوجته بشرط العدة بعد قضاء دین ردته وقالا:میراث ایضا ککسب المرتدة۔

قال الشامی: تحت قوله ویزول ملک المرتد الخ

 وفي البدائع لا خلاف أنه إذا أسلم فأمواله باقية على ملكه وأنه إذا مات أو قتل أو لحق تزول عن ملكه وإنما الخلاف في زوالها بهذه الثلاثة مقصورا على الحال عندهما ومستندا إلى وقت وجود الردة عنده وتظهر الثمرة في تصرفاته فعندهما نافذة قبل الإسلام وعنده موقوفة لوقوف أملاكه اه

 قيد بالملك لأنه لا توقف في إحباط طاعته وفرقة زوجته وتجديد الإيمان فإن الارتداد فيها عمل عمله كذا في العناية ۔ وتقدم أن من عباداته التي بطلت وقفه وأنه لا يعود بإسلامه وكذا لا توقف في بطلان إيجاره واستئجاره ووصيته وإيصائه وتوكيله ووكالته وتمامه في البحر ۔۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved