• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

فوتگی کے بعد بعض رسوما ت کا حکم

استفتاء

ہمارے معاشرہ  میں موت کا موقع بہت ساری رسومات وبد عات کا مجموعہ  بن گیا ہے ۔آئے روز نئی نئی  بدعات  ورسومات سامنے آرہی ہیں ۔ برائے کرم درج ذیل  امور میں رہنمائی  فرمادیں ۔

1)موت  کے موقع پر اہل میت کے لیے کھاناکون پکائے  ؟

2)غسل ، کفن  ،دفن  کا خرچ کس کے ذمہ  ہے؟

3)دو رونزدیک  سے آئے ہوئے  تمام افراد  کھانا کھاتے ہیں کیا ان کے لیے کھانا درست ہے ؟ دورنزدیک   کامطلب کیاہے ؟ مثلاً ہمارے  شہر چنیوٹ  میں  ایک خاندان کے کئی گھرانے بستے ہیں شہر اتنا  بڑانہیں کہ جنازہ میں شرکت کے بعد گھر پہنچنا مشکل ہو ، روز مرہ کے امور کی انجام دہی کے لیے ہر ایک روزانہ گھر سے نکلتاہے  اور کھانا گھر سے ہی آکر کھاتا ہے  ۔ لیکن  جیسے  ہی شہر میں کسی عزیز کی وفات  ہوئی  ہے  تو سارا گھرانہ  وہاں پہنچتاہے اور سارے اس  کھانے  میں شرکت  کرتے ہیں ۔ اہل میت کی طرف سے بھی اصرار کیا جاتا ہے کہ کھاناکھاکر جائیں  ورنہ  ہمیں تمہاری  تعزیت بھی قبول نہیں اور ہمارا تمہارا رشتہ ختم ایسے جملے کہے جاتے ہیں ۔ عام طور پر کھانا ایک خاص گھرانہ  کی ذمہ داری  ہوتی  ہے جس پر بڑی پابندی کے ساتھ عمل  کیاجارہاہے  کہ اگر مرنے والا شادی شدہ  عورت ہو تو میکے  والوں کے ذمہ اور اگر کوئی بچہ مرجائے تو ننھیال کے ذمہ ہوگا،افسوس  کہ بظاہر دین دار سمجھے  جانے  والے  لوگ بھی اس میں بری طرح مبتلاہیں ۔ اس صورت حال  میں شرعی حکم واضح  فرمادیں ۔

4)بعض  خاندانوں میں ایک نئی رسم سامنے آئی  ہے  انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل  دی ہے جیسے ہی خاندان میں کسی کا انتقال ہوا تو وہ کمیٹی متحرک ہوگئی   خاندان کی لسٹ  میں  40گھر ہیں تو ہر ایک سے ایک  متعین رقم مثلاً2000/روپے  فی گھر وصول کرے گی  اس جمع شدہ رقم سے میت کا غسل  کفن ، دفن بھی کیا جائے گا  اور کھانا بھی تیار کیا جائے گا  جس  کھانے میں 40 گھرانے تو شرکت  کریں گے  ہی بقیہ لوگ بھی کھائیں گے ۔ جب تک یہ رقم چل جائے ٹھیک  پھر اہل میت خود اپنی جیب سے خرچ کریں گے  اور تین  دن تک یہ کھانا خوب  چلے گا خاص کر  تیسرے  دن تو ولیمہ کی شکل اختیار  کر جاتا ہے۔ یہ رقم ہر موت پر جمع ہوگی اگر چہ کسی گھرانے میں موت سال میں تین ،چار  مرتبہ ہوجائے  ہر مرتبہ یہ  رقم جمع ہوگی اور اگر چہ کسی صاحب کے ہا ں دوچارسال  یا زیادہ دیر تک موت  واقع نہ  ہو لیکن وہ ہر موت کے موقع  پر 2000/روپے  جمع کرانے کا پابند ہوگا ورنہ  برادری  سے خارج ۔ بعض خاندانوں  میں کمیٹی ماہانہ کی بنیاد  پر رقم جمع کرتی ہے  اس طرح یہ ہر  برادری کے لیے  بہت  بڑا درد سر بناہواہے۔  برائے کرم  ان کمیٹیوں کی شرعی حیثیت واضح فرمادیں ۔

5)یہ جو مشہور  ہےکہ بچہ کی پیدائش اور شادی خوشی کا موقع ہے اور شریعت  نے  خود اس  موقع   پر  عقیقہ  اور ولیمہ کی شکل میں دعوت  اور کھانے کے اہتمام کی ترغیب  دی ہے چونکہ موت کا موقع غم ودکھ کا ہے اس موقع پر  شریعت  کی طرف سے اہل میت  کے ذمہ  کوئی دعوت  یا کھانا نہیں لگایا گیا تو لوگوں کا از خود موت کے موقع  پر دعوت ، کھانامقررکرنا  اور اس کے لیے  اس طرح  کی کمیٹیا  ں بنالینا شریعت  کے مقابلہ میں اپنی شریعت  بنانانہیں ؟

امید ہے کتاب وسنت کی روشنی میں جواب عنایت  فرماکر عنداللہ ماجور وعند الناس مشکور  ہوں گے ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)اہل میت کا کھانا  ان کےدورکے رشتہ داروں اور اہل محلہ کو پکانا چاہیئے ، تاہم یہ صرف مستحب ہے لہٰذا اگر  اہل محلہ یا دور کے  رشتہ دار اہل میت کے لیے  کھانا نہ بنائیں تو اہل میت اپنا  کھانا خود بنائیں ۔

2)میت کے  غسل ، کفن  اوردفن کا خرچہ میت کے ترکہ میں سے  کیا جائیگا ہاں اگر کو ئی اپنی  طرف سے کردے تویہ بھی جائز ہے۔

3)دور ، نزدیک سے آئے ہوئے تمام افراد کا کھانا کھانا درست نہیں ، بلکہ صرف  اہل میت  اور ان کے  ایسے رشتہ دار  کھاناکھاسکتے ہیں  جو دور دراز  سے آئے ہوں اور  ان  کے کھانے کا کوئی اور  نظم  نہ ہو،یا وہ لوگ کھا سکتے ہیں  جو  اہل میت کے کام کاج  میں مشغولی کی وجہ  سے کھانے کا اپنا  نظم  نہیں بنا سکتے ، نیز  اس  کھانے کابوجھ  کسی ایک ہی گھرانے پر لازم کرنا جا ئز نہیں ۔

4)مذکورہ طرز کی کمیٹیا ں قائم کرنا جائز نہیں ۔

5)شریعت نے   اہل میت کو اپنے لیے  یا  ایسے  قریبی رشتہ داروں   کے لیے  جن کے کھانے کا  اور کوئی نظم نہ ہو کھانا بنانے    سے منع نہیں  کیا  البتہ  اہل محلہ یا دور کے رشتہ داروں کو صرف ترغیب دی ہے   کہ وہ  اہل میت کے لیے   ایک دن کا کھانا  بنائیں تاہم  اگر وہ اس پر عمل   نہیں کر تے   تو انہیں یا دیگر   لو گو ں کو اس پر مجبور نہیں کیاجاسکتا ۔

1)حاشيۃ الشلبی  علی تبيين الحقائق  (3/ 217)میں ہے:

( قوله : ولا بأس بأن يتخذ لأهل الميت إلخ ) قال الكمال ويستحب لجيران أهل الميت والأقرباء الأباعد تهيئة طعام يشبعهم يومهم وليلتهم اه.( قوله : لقوله عليه الصلاة والسلام {اصنعوا لآل جعفر طعاما } ) الحديث حسنه الترمذي وصححه الحاكم ؛ ولأنه بر ومعروف ويلح عليهم في الأكل فإن الحزن يمنعهم من ذلك فيضعفون اه كمال .

2)الدر المختار (10/ 528)میں ہے:

(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق الغير بعينها كالرهن والعبد والجاني)…..(بتجهيزه) يعم التكفين

3+5)تبيين الحقائق (3/ 217)میں ہے:

( قوله: لأنها تتخذ عند السرور إلخ ) قال الكمال:وهي بدعة مستقبحة وروى الإمام أحمد وابن ماجه بإسناد صحيح عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت وصنعهم الطعام من النياحة

4)اصلاح الرسوم (ص:172)میں ہے:

  دستو ر  ہے کہ  اہل میت کے لیے اول  روز کسی عزیز  قریب  کے گھر سے کھانا آتا ہے  یہ فعل فی نفسہ جائز  بلکہ مسنو ن اور  قرین مصلحت ہے مگر اس میں چند  مفاسد  پیدا ہو گئے ہیں ان کی  اصلاح واجب ہے ۔ اول اس میں    ادلا بدلا ہونے لگتا ہے کہ انہوں نے ہمارے یہا ں دیا تھا ہم ان کے گھر دیں ،یہ  کوئی تجارت نہیں غمزدوں  کی دست گیری ہے ۔ اس میں غضب یہ ہے کہ قرض  چلنے  لگا  ۔ خلاصہ یہ  کہ یہ ایک  تبر ع  ہے اور تبرع میں جبر حرام ہے۔ جب ایک شخص   نے محض  رسم  کی وجہ سے واجب ادا سمجھا   تو یہ  جبر صریح ہے ۔ بعض  اوقات   جب گنجائش   نہیں  ہو  تی قرض  لینے کی نو بت   آتی ہے تو ایسی پابندی بلاشک   مکروہ ہے اس میں بے تکلفی   وسادگی  مناسب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved