- فتوی نمبر: 2-190
- تاریخ: 09 نومبر 2009
- عنوانات: اہم سوالات
استفتاء
ہمارے علاقے میں عام طور پر یہ ہوتاہے کہ کسی کی اپنی ذاتی بکری یا گائے وغیرہ ہوتی ہے تووہ دوسرے کو دے دیتاہے۔جو اس کو چراتا ہے ۔پوری دیکھ بھال بھی کرتاہے اور چرانےوالے کو مالک یاتو اس بکری کا پورا دودھ اجرت میں دے دیتاہے یا آدھا دودھ یا دودھ بھی پورا دیتاہے اور جانور کا بچہ مالک اور چرواہے کے درمیان نصف نصف ہوتاہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ شرعاًایسا کرنا جائز ہے یانہیں؟
اگر جائز نہیں تو شریعت میں اس کی کوئی متبادل صورت ہوتو بتلاکر ممنون فرمائیں۔نیز مدلل جواب مطلوب ہے لہذا مدلل جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایسا معاملہ کرنے کی گنجائش ہے۔امدادالفتاویٰ میں ہے:
سوال نمبر:294، جواب: كتب إلی بعض الأصحاب من فتاویٰ ابن تيميه كتاب الإختيار ات ما نصه ولو دفع دابته أو نخله إلی من يقول له وله جزء من نمائه صح و رواية عن احمد (ص:85ج4)پس حنفیہ کے قواعد پر تو یہ عقد ناجائز ہے کما نقل فی السوال عن عالمگیریہ لیکن بنا بر نقل بعض اصحاب امام احمد کے نزدیک اس میں جواز کی گنجائش ہے۔ پس تحر ر احوط اور جہاں ابتلاء شدید ہوتوسع کیا جاسکتاہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved