• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عامل کے پاس مرض کی تشخیص کروانے اور آئندہ کی باتیں معلوم کرنے کے لیے جانا

استفتاء

میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ عاملوں کے پاس جاتے ہیں حساب کتاب کرانے کے لیے کہ(1) ہمارا بچہ ٹھیک نہیں ہے حساب کردیں اسے کیا مسئلہ ہے؟ وہ ایسے کیوں کررہا ہے؟ یا پھر(2) اس چیز کا پتہ کروانے جاتے ہیں کہ ہمارا کیس ہے کورٹ میں اس کا فیصلہ کس کے حق میں آئے گا ؟یا پھر(3)  یہ پتہ لگوانا کہ فلاں انسان ہمارے گھر آیا جس سے پہلے لڑائی تھی تو وہ کس نیت سے آیا ہے؟  یعنی کہ روز مرہ کی چیزوں کا پتہ لگوانے کے لیے عاملوں کے پاس جانا اور ان کی باتوں پر یقین کرنا اور ان کو ہی حرف آخر سمجھنا کیسا ہے؟ اور شریعت میں اس کی کیا حیثیت ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔کسی  عامل  کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے جانا کہ ہمارے بچے کو کیا مسئلہ ہے یعنی اسے کوئی  بیماری ہے یا اس پر جادو ہے یا جنات ہیں درست ہے کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس مرض کی تشخیص کے لیے جانا۔تاہم اس صورت میں بھی عامل کی بتائی ہوئی بات کو حرف آخر سمجھنا درست نہیں۔

2،3۔ باقی یہ معلوم کرنے کے لیے جانا کہ کیس کا فیصلہ کس کے حق میں آئے گا؟ یا فلاں شخص کس نیت سے آیا تھا؟  درست نہیں کیونکہ یہ غیب کی باتیں معلوم کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔

شرح فقہ اکبر (249-250) ميں ہے:

ومنها ان تصديق الكاهن بما يخبره من الغيب كفر لقوله تعالى قل لا يعلم من فى السموات والارض الغيب الا الله ولقوله عليه الصلوة والسلام من أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما انزل على محمد صلى الله عليه وسلم ثم الكاهن هو الذى يخبر عن الكوائن في مستقبل الزمان ويدعى معرفة الاسرار في المكان وقيل الكاهن الساحر والمنجم اذا ادعى العلم بالحوادث الآتية فهو مثل الكاهن وفي معناه الرمال

قال القونوى: والحديث يشمل الكاهن والعراف والمنجم فلا يجوز اتباع المنجم والرمال وغيرهما كالضارب بالحصى.

صحیح مسلم (رقم الحدیث:5815) میں ہے:

 عن عائشة رضى الله تعالى عنها: قالت سأل أناس رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الكهان؟ فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليسوا بشيء» قالوا: يا رسول الله فإنهم يحدثون أحيانا الشيء يكون حقا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تلك الكلمة من الجن يخطفها الجني، فيقرها في أذن وليه قر الدجاجة، فيخلطون فيها أكثر من مائة كذبة.

حاشیہ ابن عابدین (6/370) میں ہے:

‌مطلب ‌في ‌الكاهن والعراف

 (قوله الكاهن قيل كالساحر) في الحديث ” «من أتى كاهنا أو عرافا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد» أخرجه أصحاب السنن الأربعة، وصححه الحاكم عن أبي هريرة.والكاهن كما في مختصر النهاية للسيوطي: من يتعاطى الخبر عن الكائنات في المستقبل ويدعي معرفة الأسرار. والعراف: المنجم. وقال الخطابي: هو الذي يتعاطى معرفة مكان المسروق والضالة ونحوهما. اهـ. والحاصل أن الكاهن من يدعي معرفة الغيب بأسباب وهي مختلفة فلذا انقسم إلى أنواع متعددة كالعراف. والرمال والمنجم: وهو الذي يخبر عن المستقبل بطلوع النجم وغروبه، والذي يضرب بالحصى، والذي يدعي أن له صاحبا من الجن يخبره عما سيكون، والكل مذموم شرعا، محكوم عليهم وعلى مصدقهم بالكفر. وفي البزازية: يكفر بادعاء علم الغيب وبإتيان الكاهن وتصديقه. وفي التتارخانية: يكفر بقوله أنا أعلم المسروقات أو أنا أخبر عن إخبار الجن إياي اهـ. قلت: فعلى هذا أرباب التقاويم من أنواع الكاهن لادعائهم العلم بالحوادث الكائنة. وأما ما وقع لبعض الخواص كالأنبياء والأولياء بالوحي أو الإلهام فهو بإعلام من الله تعالى فليس مما نحن فيه اهـ ملخصا من حاشية نوح من كتاب الصوم.

مطلب في دعوى علم الغيب قلت: وحاصله أن دعوى علم الغيب معارضة لنص القرآن فيكفر بها، إلا إذا أسند ذلك صريحا أو دلالة إلى سبب من الله تعالى كوحي أو إلهام، وكذا لو أسنده إلى أمارة عادية يجعل الله تعالى. قال صاحب الهداية في كتابه مختارات النوازل: وأما علم النجوم فهو في نفسه حسن غير مذموم، إذ هو قسمان: حسابي وإنه حق وقد نطق به الكتاب. قال تعالى – {الشمس والقمر بحسبان} [الرحمن: 5]- أي سيرهما بحسبان. واستدلالي بسير النجوم وحركة الأفلاك على الحوادث بقضاء الله تعالى وقدره، وهو جائز كاستدلال الطبيب بالنبض على الصحة والمرض، ولو لم يعتقد بقضاء الله تعالى أو ادعى علم الغيب بنفسه يكفر اهـ وتمام تحقيق هذا المقام يطلب من رسالتنا سل الحسام الهندي

آپ کے مسائل اور ان کا حل (2/542) میں ایک سوال کے جواب میں  ہے:

مستقبل کے بارے میں جو اس قسم کی پیش گوئیاں کی جاتی ہیں  ان پر یقین کرنا جائز نہیں ……… الخ

اسلامی عقائد (ص:280،281) میں ہے:

ظاہری  چیزوں  کو معلوم کرنا انسان کے اختیار میں ہے چاہے معلوم کرے یا نہ کرے لیکن غیب کا معلوم کرنا انسان کے اختیار سے باہر ہے ……………..  اس سے معلوم ہوا کہ جو یہ دعویٰ کرے کہ میں ایسا علم جانتا  ہوں جس سے غیب معلوم کرلیتا ہوں اور ماضی مستقبل کی باتیں بتا سکتا ہوں وہ جھوٹا ہے اور خدائی کا دعویٰ کرتا ہے۔

اگر کسی نبی کو یا ولی کو یا جن کو  یا  شہید کو یا  فرشتے کو  یا  پیر کو یا  نجومی کو ، یا  رمال کو یا  جفار کو یا فال کھولنے والے کو ایسا مان لیا جائے تو ماننے والا شرک کا مرتکب  ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

کمالات عزیزی (ص85 )میں ہے:

عامل اگر مریض کا حال معلوم کرنا چاہے تو یہ ترکیب کرے کہ الحمد شریف سات مرتبہ آیت الکرسی،  سات مرتبہ سورۃ الکافرون، سات بار سورۃ اخلاص، سات بار سورۃ الفلق اور سورۃ الناس سات سات بار پڑھ کر مریض پر دم کرے ۔اگر مرض بڑھ جاوے تو آسیب ہے اور اگر کم ہو جاوے تو جادو ہے اور اگر بدستور مرض رہے تو بیماری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved