- فتوی نمبر: 28-195
- تاریخ: 02 اپریل 2023
- عنوانات: عقائد و نظریات > اسلامی عقائد
استفتاء
امام جلال الدین بن ابی بکر السیوطی نے اس حدیث مبارکہ کو اپنی کتاب الجامع الصغیر میں نقل کیا ہے۔
أدبو أولادکم علی ثلاث خصال : حب نبیکم، وحب أھل بیته، وقراءة القرآن.
اپنی اولاد کو تین چیزوں کا ادب سیکھاؤ : اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کی تلاوت کا ادب۔
سیوطی، الجامع الصغیر، 1 : 25، رقم : 311، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان
اس حدیث کے ذیل میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں مفتیان کرام سے کہ :
1.اہلبیت سے مراد کون ہے اور آج کے زمانے میں کس کو کہا جاتا ہے؟
2.لوگ کہتےہیں کہ اگر اہلبیت فاسق فاجر شخص ہی کیوں نہ ہو اسکا احترام کرنا لازم ہے کیونکہ یہ نبی علیہ السلام کی اولاد ہیں یہاں تک کہ بدعتی ہی کیوں نہ ہو مشرک ہی کیوں نہ ہو، اب شریعت مطہرہ اس حوالے سے کیا کہتی ہے کہ اہلبیت سے کس معیار پر محبت رکھنی ہے اور کس معیار پر نہیں رکھنی ہے؟
اس مسئلہ نے ہمیں بہت پریشان کیا ہے کہ اہلبیت سے دشمنی خوارج کا وطیرہ رہا ہے دلیل کے روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
2-1. اہل بیت سے مراد آپ ﷺ کی بیویاں اور حضرت علی ،حضرت فاطمہ،حضرت حسن ،حضرت حسین،رضی اللہ عنہم ہیں،انکی آگے اولادیں مراد نہیں،اور ان حضرات میں نہ کوئی مشرک تھا اور نہ کوئی بدعتی اور فاسق فاجر تھا بلکہ یہ سب حضرات اعلی درجے کے متقی اور پرہیزگار تھے،اور انہی کی محبت کا حکم مذکورہ حدیث میں مراد ہے۔
معارف القرآن(7/139)میں ہے:
بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کےلیےتیارہوں لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں، جیسے ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا،اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی:انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا
اوربعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا"اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي”(رواہ ابن جریر)
ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved