- فتوی نمبر: 33-03
- تاریخ: 18 مارچ 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضرت امیر معاویہؓ کی والدہ حضرت ہندہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: ابوسفیان بخیل آدمی ہے، اگر میں اس کے مال سے کچھ پوشیدہ طور پر لے لیا کروں تو مجھ پر گناہ تو نہیں ہوگا؟ آپ نے فرمایا: تو دستور کے موافق صرف اتنا لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بیٹوں کو کافی ہو۔
کیا یہ حدیث درست ہے؟
وضاحت مطلوب ہے: آپ کو حدیث میں کیا اشکال ہے آپ کیا پوچھنا چاہ رہے ہیں؟
جواب وضاحت: مطلب جتنا کام لیتا ہے اتنی اجرت نہیں دیتا، تنخواہ مقرر بھی نہیں ہے، جتنا دل چاہے دے دیتا ہے، خاص طور پر مجھے کام دیتے ہیں اور میرا کام بھی زیادہ ہے باقی دو لوگوں سے۔ ہم کل تین ورکر ہیں اس ٹریول ایجنسی میں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ حدیث درست ہے اور صحیح ہے اور یہ حدیث صحیح البخاری (رقم الحدیث: 5049) اور مسلم شریف (رقم الحدیث: 1714) میں موجود ہے۔ اور اس حدیث میں میاں بیوی سے متعلق یہ بات ہے کہ اگر میاں اپنی بیوی کو واجب نفقہ نہ دیتا ہو تو بیوی کے لیے اتنا مال چپکے سے لینا جو اس کی ضرورت کے بقدر ہو جائز ہے ہر ایک کے لیے لینا جائز نہیں ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں آپ اپنے مالک سے چپکے سے زیادہ پیسے نہیں لے سکتے۔ باقی رہی یہ بات کہ وہ کام زیادہ لیتا ہے اور اجرت کم دیتا ہے تو اس حوالے سے اس سے کام اور اجرت طے کروالیں یا دوسری جگہ کام تلاش کرلیں۔
صحیح بخاری(رقم الحدیث: 5049) میں ہے:
عن عائشة، «أن هند بنت عتبة قالت: يا رسول الله، إن أبا سفيان رجل شحيح وليس يعطيني ما يكفيني وولدي إلا ما أخذت منه وهو لا يعلم، فقال: خذي ما يكفيك
صحیح مسلم (رقم الحدیث: 1714) میں ہے:
عن عائشة، قالت: دخلت هند بنت عتبة امرأة أبي سفيان على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن أبا سفيان رجل شحيح، لا يعطيني من النفقة ما يكفيني ويكفي بني إلا ما أخذت من ماله بغير علمه، فهل علي في ذلك من جناح؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خذي من ماله بالمعروف ما يكفيك ويكفي بنيك»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved