• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ابوطالب کے ایمان کے متعلق درست نظریہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نبی کریم ﷺ کے چچا ابو طالب کے ایمان کے متعلق صحیح نظریہ کیا ہے؟جمہور کی رائے کیا ہے اور کیا اس مسئلے میں دورائے ہیں ؟ اختلاف کس نے کیا ہے؟ دونوں اطراف کے کیا دلائل ہیں ؟اس پر تحریری جواب اگر مل جائے تو بہت اچھا ہو گا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جمہور کی رائے اور صحیح نظریہ یہ ہے کہ ابو طالب کاانتقال کفر پر ہوا ۔کچھ اکادکا لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان کے دلائل کے لیے ’’اسنی المطالب نامی‘‘ کتاب دیکھ لیں ۔ان حضرات کی مرکزی دلیل یہ ہے کہ ابوطالب حضورﷺکی حقانیت کے قائل تھے ۔مگر ایمان صرف جاننے کا نام نہیں بلکہ ماننے کا نام ہے محض علم تو اہل کتاب کو بھی حاصل تھامگر جمہور کے دلائل مضبوط ہیں ۔جمہور کے دلائل کے لیے درج ذیل فتوی ملاحظہ فرمائیں :

’’(سوال ) حضرت ابوطالب مسلمان تھے یا کافر ؟ ان کے ایمان اور کفر کے متعلق رسول اللہ کا کیا خیال تھا ؟

(جواب ) جہاں تک روایات صحیحہ معتبرہ سے ثابت ہے وہ یہی ہے کہ حضرت علی ؓ کے والد ابوطالب کا اسلام لانا ثابت نہیں بلکہ کفر پر ہی انتقال ہونا ثابت ہوتا ہے۔ بخاری شریف میں باب قصتہ ابی طالب میں یہ حدیث مذکور ہے :

 عن المسیب ان اباطالب لما حضرتہ الوفاۃ دخل علیہ النبی و عندہ ابوجہل فقال ای عم قل لا الہ الا اللہ کلمۃ احاج لک بہا عند اللہ فقال ابوجہل و عبد اللہ بن ابی امیۃ یا اباطالب ترغب عن ملۃ عبدالمطلب فلم یزالا یکلماہ حتی قال آخرشئی کلمہم بہ علی ملۃ عبدالمطلب ۔

یعنی مسیب بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ ان کے پاس آئے وہاں ابوجہل بھی موجود تھا حضور نے فرمایا اے میرے چچا آپ لا الہ الا اللہ کہہ لیجئے یہ ایک کلمہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ کیلئے خدا کے سامنے گواہی دیکر شفاعت کرسکوں گا اس پرابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا کہ اے ابوطالب کیا تم عبدالمطلب کے مذہب کو چھوڑ دو گے ؟ اور دونوں یہ بات برابر کہتے رہے یہاں تک کہ ابوطالب نے آخری بات جو کہی وہ یہ تھی کہ ( میں ) عبدالمطلب کے مذہب پر ( قائم ہوں )۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوطالب نے آخری دم تک بھی اسلام قبول نہیں کیا۔ بخاری میں اسی باب قصتہ ابی طالب میں یہ حدیث بھی مذکور ہے :

قال عباس بن عبد المطلب للنبی ما اغنیت عن عمک فانه کان یحوطک و یغضب لک قال هوفی ضحضاح من نار ولو لا انا لکان فی الدرک الا سفل من النار

یعنی حضرت عباس ؓ نے آنحضرت سے پوچھا کہ آپ نے اپنے چچا (ابوطالب) کو کیا نفع پہنچایا وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کی وجہ سے آپ کے دشمنوں پر غضب ناک ہوتے تھے حضور نے فرمایا وہ چھچلی(کم گہری) آگ میں ہوں گے اور اگر میرا تعلق نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نیچے کے طبقے میں جاتے ۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابوطالب کی وفات کفر پر ہوئی اور وہ مبتلائے عذاب بھی ہوں گے مگر حضورکی شفاعت سے عذاب کی نوعیت میں تخفیف ہوجائے گی۔ اسی باب کی تیسری حدیث یہ ہے کہ حضورنے ابوطالب کے متعلق فرمایا کہ:

 لعلہ تنفعہ شفاعتی یوم القیامۃفیجعل فی ضحضاح من النار یبلغ کعبیہ یغلی منہ دماغہ۔

یعنی امید ہے کہ ابوطالب کو میری شفاعت قیامت کے روز فائدہ پہنچائے گی وہ یہ کہ چھچلی (کم گہری)آ گ میں رکھے جائیں گے جو صرف پاؤں کے ٹخنوں تک ہوگی مگر اس کی گرمی سے دماغ کھولتا ہوگا۔ اس حدیث سے قیامت کے روز حضور کی جانب سے شفاعت ہونا اور شفاعت سے صرف عذاب کی تخفیف ہونامعلوم ہوتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ عذاب میں مبتلا رہیں گے ۔

حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں اسی حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ:

’’ کافر کو حضورکی شفاعت سے تخفیف عذاب کا فائدہ پہنچناابوطا لب کی خصوصیت ہے کہ حضورکی حفاظت اور حمایت کے صلہ میں حضورکی برکت سے اس قدر فائدہ ان کو پہنچے گا ۔‘‘

یہی حدیث حافظ ابن حجر ؒ نے اصابہ میں مسلم سے نقل فرمائی ہے اس میں لعلہ نہیں بلکہ ینفعہ شفاعتی کا لفظ ہے اور ظاہر ہے کہ قیامت کی یہ خبر اور عذاب کی تخفیف کی یہ صورت واقعات مستقبلہ میں سے ہے جس کا علم حضور کو اعلام الہی سے ہوا ہوگا اس لئے اس کے متحقق الوقوع ہونے میں کوئی شبہہ نہیں ہوسکتا اور اس بناء پر اب کوئی امکان اس کا باقی نہ رہا کہ ابوطالب کا اسلام کسی طور سے ثابت ہوسکے ۔(کفایت المفتی ص:164/2) ‘‘۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved