• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عدالت کا خلع کی بنیاد پر فیصلہ جاری کرنا

استفتاء

میری بہن***کی شادی *** سے 1999-11-7  کو طے ہوئی، لیکن بعد میں حالات خراب ہو گئے اور ہم لوگوں نے عدالت سے خلع لے لی۔ اب*** اور اس کے اہل خانہ ہمیں بار بار فون کر رہے ہیں کہ ہم صلح کریں اور لڑکی کو ان کے ساتھ بھیج دیں۔

آپ سے درخواست ہے کہ یہ بتا دیں کہ عدالت نے جو طلاق دلوائی ہے خلع کی بنیاد پر اس کا شرعی لحاظ سے کیا حکم ہے؟ کیا شرع میں طلاق ہوئی یا نہیں؟ کیا اب لڑکی کی دوسری شادی کرنا جائز ہے یا نہیں؟ کیا وہ اپنے پہلے شوہر (***) کے ساتھ رہ سکتی ہے یا نہیں؟ اگر رہ سکتی ہے تو کیسے؟

نوٹ: ان کے تین بچے بھی ہیں۔ عدالت کے احکام اور دیگر کاغذات ساتھ موجود ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مذکورہ صورت میں عدالت نے اگرچہ فسخ نکاح کے بجائے خلع کی بنیاد پر فیصلہ جاری کیا ہے تاہم چونکہ فسخ نکاح کی شرعی بنیاد پائی جا رہی ہے یعنی شوہر کا تعنت (نان و نفقہ نہ دینا) ثابت ہو رہا ہے، اس لیے اس فیصلے سے نکاح ختم سمجھا جائے گا۔

2۔ عورت عدت گذارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ اگر اسی خاوند سے نکاح کرنا ہو تو بھی نئے مہر کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کر کے رہ سکتی ہے۔

3۔ عدت کی ابتداء فیصلے کی تاریخ سے ہو گی۔ بحوالہ فتاویٰ عثمانی جلد 2۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved