• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

عدم منت کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک آدمی نے پانچ چھ دکانیں کھولیں اورنیت یہ کی ان میں سے ایک دکان کا مکمل نفع اللہ کے راستے میں خرچ کروں گا، اور خود بھی اور اپنے گھر والوں پر کچھ بھی اس میں سےخرچ نہیں کروں گا، کچھ عرصے کے بعد اسی دکان پہ اس کا بیٹا بیٹھنا شروع ہوگیا ہے۔ اب یہ بیٹا اپنا خرچہ اسی دکان سے لیتا ہے اور وہ آدمی چاہتا ہے کہ اب میں نیت تبدیل کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ایک اسی دکان کے مکمل نفع کی بجائے ہر دکان سے ایک مخصوص حصہ پانچ یا دس فیصد اللہ کے راستے میں نکال لیا کروں ۔کیا اب ایسا کرسکتا ہے ؟مذکورہ نیت صرف دل میں کی ہویا زبان سے بھی کہا ہو دونوں صورتوں کا کیا حکم ہوگا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

جو نیت اور ارادہ پہلے کیا تھا اول تو اسی کو نبھانا چاہیے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو مذکورہ صورت میں سائل اپنی نیت تبدیل کرکے ہر دکان سے ایک مخصوص حصہ اللہ کے راستے میں نکالنا چاہے تو ایسا بھی کرسکتا ہے۔

تو جیہ :مذکورہ صورت اللہ کے راستے میں ایک دکان کے مکمل منافع کو خرچ کرنے کے ارادہ کی ہے منت کی صورت نہیں  کیونکہ منت صرف نیت سے نہیں ہوتی اور جو الفاظ زبان سے کہے ہیں ان میں نہ تعلیق ہے اور نہ لزوم کا کوئی صیغہ ہے۔

الفقه الاسلامي وادلة(٤/٢٥٥٢)میں ہے:

وركنه عندالحنفية وهوالصيغة الدالة عليه مثل قول الشخص (لله علي كذا ) و(على كذا) او (علي نذر)او(هذاهدى)أو(صدقة)او(مالى صدقة )او(مااملك صدقة)ونحوها

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved