• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر کوئی شرط بھی نہ پوری ہوئی تو تین طلاق واقع ہو جائیں گی

استفتاء

میری یعنی**** ولد *** مرحوم کی شادی کو تقریباً چار ماہ ہونے والے ہیں اور مجھ سے اپنا گھر نہیں سنبھل رہا اور  جو مجھ سے اس میں کوتاہی ہوئی ہے اس کا اعتراف کرتے ہوئے اور اقرار کرتے ہوئے معافی مانگتا ہوں کہ جو مجھ سے غلطی اور کوتاہی ہوئی ہے اس کو معاف کر دیں اور میں عہد کرتا ہوں کہ ایسی غلطیاں پھر نہیں کروں گا اور گھر کے چلانے کا طریقہ کار میرا یہ ہو گا کہ گھر میں اچھے اخلاق سے رہوں گا اور کسی قسم کا بھی گلا شکوہ نہیں آنے دوں گا اور نہ گلہ شکوہ کروں گا۔

اچھے اخلاق کی تفصیل یہ ہے کہ گھر میں لڑائی جھگڑا، طعن و تشنیع اور کسی کی بات سن کر غصہ میں آکر لڑنا جھگڑنا یا غصہ میں آکر بات نہ کرنا اور منہ بنا لینا یا غصہ میں آکر گھر چھوڑ دینا، یا غصہ میں آکر اوروں سے اس کی بیستی یعنی بے عزتی کرنا، یا  غصہ میں آکر خرچہ بند کر دینا وغیرہ وغیرہ اور غصہ میں آکر  اپنی بیوی کو میکے میں چھوڑ جانا، اور پھر نہ اس کا حال لینا، اور نہ اس کو خرچہ دینا، اور نہ میں اپنے گھر کی بات کسی کو بتاؤں گا اور نہ اپنے راز کی بات کسی کو بتاؤں گا، بہ امر مجبوری سوائے اپنے سسر ***صاحب کو  اور وہ بھی حتی الامکان کوشش کروں گا نہ بتاؤں، اگر کوئی ایسا مسئلہ ہوا جس کا حل میرے پاس نہ ہوا تو وہ بتاؤں گا، یا ان کے مشورے سے جس کا وہ نام لیں گے اس کو بتاؤں گا، اس کے علاوہ میں اپنے گھر کی بات اور راز کی بات کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا۔

خرچہ کی تفصیل یہ ہے کہ میں روز مرہ کی جو ضروریات ہیں اس کو احسن طریقہ سے پوری کروں گا یعنی خرچہ کی تنگی نہیں آنے دوں گا، اور موسم کے اعتبار سے جو بھی کپڑا، جوتی وغیرہ ہو گی وہ بغیر کسی کے کہے وہ مہیا کروں گا، اور کھانے پینے کے معاملے میں بھی کوئی تنگی نہیں آنے دوں گا، اور گھر کی ضروریات میں خود پوری کروں گا، اس کے علاوہ صافی جیب خرچ بھی دوں گا جو دو سو روپے ڈیلی سے شروع ہو گی اور مہنگائی کے حساب سے بڑھتی رہے گی، اور اس جیب خرچ کا حساب نہیں مانگنا۔

شرطیہ طلاق:

مذکورہ بالا شرائط میں سے جو شرط نہ پائی گئی تو اس کی  قانونی کاروائی ہو گی اور اگر کوئی شرط بھی نہ پوری ہوئی تو تین طلاق واقع ہو جائیں گی اور اس کے ساتھ دو لاکھ روپے جرمانے کے ادا کرنے ہوں گے اور نہ کرنے پر قانونی کاروائی ہو گی۔

نوٹ: شوہر نے مذکورہ بالا تمام شرائط کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ بعض شرائط کی خلاف ورزی کی ہے اور بعض کی نہیں کی یعنی سوال میں خط کشیدہ شرائط کی خلاف ورزی شوہر نے نہیں کی۔ نیز شوہر کی جانب سے مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کرنے سے متعلق ایک بیان ساتھ منسلک ہے۔

سوال یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں طلاق ہوئی یا نہیں؟

خاوند کا بیان

شوہر ***ولد ***۔ جو میں نے معاہدہ تحریر کیا تھا اور جو شرائط تحریر کی تھیں اور یہ کہا تھا کہ میں ان کی خلاف ورزی نہیں کروں گا لیکن بعد معاہدہ میں ان شرائط کی خلاف ورزی کر چکا ہوں۔ مثلاً اپنی بیوی سے دو مرتبہ جھگڑا کر چکا ہوں، خرچہ بھی ادا نہیں کیا، حالات کچھ ایسے آگئے کیونکہ میں امام مسجد ہوں جس کی وجہ سے میں اپنی بیوی کو خرچہ نہیں دے سکا۔

بیوی کا بیان

معاہدہ کے بعد پہلے سے بڑھ کر لڑائی جھگڑا کرتا ہے اور خرچہ نہیں دیتا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

منسلکہ اقرار نامہ میں طلاق کے شرطیہ جملے کی رُو سے (یعنی اس جملے کی رُو سے کہ ’’اگر کوئی شرط بھی نہ پوری ہوئی تو تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی‘‘) طلاق کا وقوع تب ہو گا جب مذکورہ بالا شرائط میں سے کوئی شرط بھی پوری نہ ہوئی ہو۔ جبکہ مذکورہ صورت میں ایسا نہیں ہے کہ کوئی بھی شرط پوری نہ ہوئی ہو، جیسا کہ نوٹ کے ذیل میں دی گئی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اقرار نامہ میں خط کشیدہ شرائط کی خلاف ورزی شوہر نے بہر حال نہیں کی۔ لہذا مذکورہ صورت میں چونکہ شرط کا تحقق نہیں ہوا اس لیے طلاق کے شرطیہ جملے کی رُو سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

البتہ اگر یہاں یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ شوہر کی جانب سے شرائط کی خلاف ورزی سے متعلق منسلکہ بیان میں شوہر کا یہ اقرار موجود ہے کہ ’’لیکن بعد معاہدہ میں ان شرائط کی خلاف ورزی کر چکا ہوں‘‘ لہذا اس اقرار کی رُو سے شرط کا تحقق ہو چکا ہے اور طلاق واقع ہو گئی ہے۔

اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس اقرار سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ شوہر ان شرائط کی خلاف ورزی کر چکا ہے جو شرائط معاہدہ میں تحریر کی تھیں۔  شوہر نے کل شرائط کی خلاف ورزی کی تھی یا کچھ کی کی تھی؟ یہ عبارت اس سے خاموش ہے بالفاظ دیگر یہ اقرار کل شرائط کی خلاف ورزی کرنے میں صریح نہیں ہے۔ نیز میاں بیوی نے اپنے بیان میں بھی ایک دو باتوں میں خلاف ورزی کا ذکر کیا ہے، کل باتوں میں خلاف ورزی کا ذکر نہیں کیا۔ جبکہ ہمارے پیش نظر سوال میں نوٹ کے ذیل میں دی گئی عبارت اس بارے میں صریح ہے کہ شوہر نے خط کشیدہ شرائط کی خلاف ورزی نہیں کی۔ لہذا مذکورہ مبہم اقرار کی وجہ سے طلاق واقع ہونے کا حکم لگانا درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved