• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اگر میں وہابیین اور غیر مقلدین کی طرف جاؤں تو میری بیوی کو تین طلاق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک گاؤں میں بریلوی مسلک کے پیر صاحب رہتے ہیں۔ ایک دیوبندی مولوی صاحب وہاں کام کے سلسلے میں گئے۔ پیر صاحب نے کہا کہ تم زبان سے یہ کہو کہ میں صاحبزادہ صابر کے مسلک پر ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ ’’ اگر میں وہابیین اور غیر مقلدین کی طرف جاؤں تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘۔ چنانچہ مولوی صاحب نے کہہ دیا۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت میری نیت طلاق کی نہیں تھی اور چونکہ بریلوی بھی حنفی مسلک پر ہیں اس لیے میں نے کہا۔

اب یہ فرمائیں کہ اس کا کیا حکم ہے؟

وضاحت مطلوب ہے:

’’ اگر میں وہابیین اور غیر مقلدین کی طرف جاؤں تو میری بیوی کو تین طلاق‘‘ سے کیا مراد ہے؟ غیر مقلد بننا مراد ہے؟ یا ان کے کسی پروگرام میں شریک ہونا مراد ہے؟ یا کچھ اور مراد ہے؟ بہر حال جو بھی مراد ہو اسے واضح کیا جائے۔

جواب وضاحت:

مراد مسلک وہابیت اور مسلک غیر مقلدیت ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگرچہ پیر صاحب کے ذہن میں وہابیت سے مراد دیوبندیت ہے لیکن چونکہ خود مولوی صاحب کے ذہن میں وہابیت سے مراد دیوبندیت نہیں بلکہ غیر مقلدیت ہی ہے اس لیے یہ شخص اگر مسلکِ غیر مقلدیت اختیار کرے گا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

(وكذا المظلوم إذا أشهد الخ) أقول: التقييد بالاشهاد إذا كان مظلوما غير لازم، ففي الاشباه: وأما نية تخصيص العام في اليمين فمقبولة ديانة اتفاقا وقضاء عند الخصاف، والفتوى على قوله: إن كان الحالف مظلوما، كذلك اختلفوا هل الاعتبار لنية الحالف أو المستحلف؟ والفتوى على نية الحالف إن كان مظلوما لا إن كان ظالما، كما في الولوالجية والخلاصة اه.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved