- فتوی نمبر: 9-122
- تاریخ: 17 اکتوبر 2015
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > منتقل شدہ فی حدیث
استفتاء
گزارش ہے کہ میں رائیونڈ سے متخرج اور جامعہ دارالعلوم کبیر والا سے متخصص ہوں۔ اس وقت تدریس کے علاوہ ایک مسجد میں خطابت کی خدمت میں مشغول ہوں۔
بہرحال میں نے جمعہ کے بیان میں شب براءت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے درج ذیل حدیث مجمع کے سامنے بیان کی اور اس کی روشنی میں پندرہ شعبان کی شب کو عبادت اور دن کو روزہ رکھنے کی ترغیب دی۔ بعد میں، میں نے البانی کے کلام میں دیکھا تو اس نے اس حدیث کو موضوع لکھا تھا (انظر کلام الالبانی علی احادیث المشکاة)۔
جبکہ یہی حدیث ترغیباً ماہنامہ”البلاغ“ شعبان 1437، ص: 40 میں بھی شائع ہوئی ہے۔ اور جامعہ فاروقیہ شجاع آباد کے ماہنامہ ”صدائے فاروقیہ “ شعبان 1437، ص: 34 میں لکھا ہے کہ ” حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ، مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور دیگر علماء کے نزدیک اس دن روزہ رکھنا مستحب ہے“۔
وہ حدیث یہ ہے:
عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إذا كانت ليلة النصف من شعبان، فقوموا ليلها وصوموا نهارها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا، حتى يطلع الفجر "
[سنن ابن ماجه 1/ 444] وکذا فی [مشكاة المصابيح 1/ 410، رقم الحدیث: 1308 ، باب قیام شهر رمضان]
بہرحال آپ حضرات سے دریافت طلب امور یہ ہیں کہ:
(الف) ان تینوں امور بالا کا شرعی حکم بیان فرمادیں (1- کیا یہ حدیث ناقابل ِ بیان ہے؟ 2- اس رات کو عبادت نہیں کرنی چاہیے؟ 3- اس دن روزہ نہیں رکھنا چاہیے؟)۔
(ب ) کیا میں مجمع کے سامنے رجوع کروں یا نہ کروں؟ اور کروں تو کن الفاظ میں رجوع کروں جس سے میں آخرت کے گناہ سے بھی بچ سکوں اور امت میں انتشار بھی پیدا نہ ہو۔
غیر شرعی امور چھوڑنے والے پیر سے بیعت کا تعلق برقرار رکھنا
محترم و مکرم حضرت مولانا مفتی صاحب دامت برکاتہم العالیہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میں اپنے ایک ذاتی مسئلے میں آپ کی رہنمائی لینا چاہتی ہوں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں دس سال سے زائد عرصہ سے ایک معروف بزرگ سے بیعت ہوں جس کا نام ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتی، مجھے ان سے بیعت ہونے کے بعد دینی حوالے سے اچھا خاصا فائدہ بھی ہوا ہے۔ ان بزرگوں کی ایک عادت یہ ہے کہ یہ اپنے سے بیعت عورتوں سے بالکل بند کمرے میں تنہائی میں بھی مل لیتے ہیں۔ تنہائی میں مل لینے کی صورت حال جہاں اور متعدد عورتوں کو پیش آئی وہاں یہ صورت حال مجھے بھی پیش آئی۔ لیکن اس وقت تک مجھے باوجود عالمہ ہونے کے اس کے غلط اور ناجائز ہونے کا احساس نہ تھا کیونکہ یہ ہمارے سلسلے میں عام تھا۔ اس تنہائی کے دوران خود میرے ساتھ تو کوئی مزید بات پیش نہیں آئی البتہ بعض دوسری عورتوں کو جن میں سے اکثر عورتیں وہ ہیں جو ان بزرگ کے زیر نگرانی مدارس میں معلمات تھیں یا ابھی بھی ہیں اس کی نوبت بھی آئی کہ ان بزرگوں نے تنہائی میں اپنے ہاتھ سے ان عورتوں کے منہ کھانے کی چیز ڈالی۔ یہ بات جن ذرائع سے مجھے معلوم ہوئی ہے مجھے ان پر پورا اعتماد ہے۔ البتہ ان بزرگ سے بیعت ہونے والے والی بعض عورتوں کے بارے میں یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ان بزرگوں نے ان کے ساتھ ہمبستری یعنی صحبت کے علاوہ سب کچھ کیا ہے حتیٰ کہ اپنا برہنہ جسم ان عورتوں کے برہنہ جسم کے ساتھ ملایا۔ لیکن یہ بات جن ذرائع سے مجھے معلوم ہوئی ہے جن میں سے بعض خلفاء بھی شامل ہیں مجھے ان پر پورا اعتماد نہیں ہے۔
میرے علم کے مطابق اب ان بزرگ نے عورتوں سے تنہائی میں ملنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ان کے بعض خلفاء نے ان پر ان کی اس عادت کے غیر شرعی ہونے پر شدید نکیر کی تھی۔ اس سب کے باوجود میری عقیدت ان بزرگوں کے ساتھ ابھی بھی برقرار ہے۔
ان سب باتوں کے پیش نظر میرا سوال یہ ہے کہ کیا میرا ان بزرگوں سے اپنے بیعت کے تعلق کو برقرار رکھنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
آپ فی الحال اپنی بیعت پر قائم رہیں لیکن پیر صاحب کی مجالس میں شرکت نہ کریں۔ ان میں شرکت خواتین کے لیے ضروری بھی نہیں۔ پیر صاحب نے جو وظائف بتائے ہیں ان کو پورا کرتی رہیں۔ اگر کوئی بات پوچھنی ہو تو اپنے مردوں کے واسطہ سے پوچھیں۔ اس کے ساتھ حالات کو دیکھتی رہیں مثلاً کم و بیش دو سال تک۔ اگر پیر صاحب اپنی اصلاح کر لیں تو فبہا ورنہ ان سے بیعت و تعلق توڑ لیں اور کسی متبع سنت شیخ سے بیعت ہو جائیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved