- فتوی نمبر: 31-186
- تاریخ: 08 ستمبر 2025
- عنوانات: عقائد و نظریات > اصول دین
استفتاء
ایک طالب علم نے آپ سے سوال پوچھا ہے کہ اہل بیت محمد ﷺ میں کون کون لوگ شامل ہیں ؟ اور کیا یہ سلسلہ حضرت امام حسین ؓ پر ختم ہوجاتا ہے یا اس سے آگے بھی چلتا ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اہل بیت کا اصل مصداق تو امہات المومنین ہیں لیکن حدیث کساء کی وجہ سے حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ اور حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کے بعد کے حضرات اہل بیت کا مصداق تو نہیں ہیں البتہ حضور ﷺ کی اولاد اور ذریت ہیں اس شرافت کی وجہ سے انہیں سادات کہا جاتا ہے اور کبھی مجازاً انہیں بھی اہل بیت کہہ دیا جاتا ہے چنانچہ آئمہ اہل بیت کا لفظ مشہور ہے ۔
الکوکب الدری لمولانا رشید احمد گنگوہیؒ (2/255) میں ہے :
قوله اللهم هؤلاء اهل بيتي لاشك ان المراد باهل البيت في الآية انما هن ازواجه المطهرات يدل علي ذلك سياق الآيات وسباقهالكن النبي صلي الله عليه وسلم اراد ان يشترك اهل البيت في اطلاق واحد وهم اهل البيت الذين جللهم بكساء في الفضيلة و التطهير فدعا لهم ولذلك حين سالته ام سلمة قال لها انت علي مكانك اي المرتبة التي لك من غير مسئلتي فانكن مراد الآيةو مصداقها …..
فہم حدیث از ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب ؒ (1/244) میں ہے :
اہل بیت کا مطلب ہے گھر والے اور آپ ﷺ کے گھر والوں میں آپ کی ازواج تو شامل ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ان کو اہل بیت لقب سے خطاب کیا ہے ۔ساتھ ہی آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق حضرت فاطمہ ، حضرت علی اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں ۔
معارف القرآن(سورہ احزاب آیت33) میں ہے :
’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں، جیسے ’’صحیح مسلم‘‘ کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}. اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: “اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي“. (رواہ ابن جریر)
ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں ۔ اس لئے صحیح یہی ہے کہ لفظ اہل بیت میں ازواج مطہرات بھی داخل ہیں، کیونکہ شان نزول اس آیت کا وہی ہیں، اور شان نزول کا مصداق آیت میں داخل ہونا کسی شبہ کا متحمل نہیں۔ اور حضرت فاطمہ و علی و حسن و حسین (رض) بھی ارشاد نبوی (علیہ السلام) کے مطابق اہل بیت میں شامل ہیں۔
تحفۃ الالمعی از مولانا سعید احمد پالن پوری ؒ (7/396) میں ہے :
چہارتن یعنی حضرات فاطمہ ، حسن ، حسین اور علی رضی اللہ عنہم کی اہل البیت میں شمولیت دعائے نبوی کی برکت سے ہوئی ہے ۔ اہل بیت کا اصل مصداق ازواج ِ مطہرات رضی اللہ عنہن ہیں کیونکہ سورۃ الاحزاب میں آیات تخییر کے بعد پانچ آیتوں میں ازواج ہی کے لیے مختلف ہدایات ، نصائح اور فضائل بیان ہوئے ہیں اور ان کے درمیان میں یہ آیت آئی ہے ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔اس لیے نزول آیت کے ساتھ ہی نبی ﷺ نے چارتن کو ایک کمبل میں لے کر دعا کی یا الہی یہ بھی میرے گھر والے ہیں۔ یہ دعا اللہ تعالٰی نے قبول فرمائی ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved