- فتوی نمبر: 10-214
- تاریخ: 19 اکتوبر 2017
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے کے بارے میں کہ *** اور *** کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ *** *** کے لیے حج کے موسم میں حاجیوں کی بلڈنگ میں رہ کر ان کو تین وقت کا کھانا پیش کرنے کی خدمت سر انجام دے گا۔ کھانا پیچھے مطبخ سے بن کر آتا تھا، *** کی ذمہ داری یہ تھی کہ اس کھانے کو حاجیوں کی پلیٹ میں ڈال کر ان کو پیش کرے۔
*** نے *** سے 250 روپے اجرت فی یومیہ کا مطالبہ کیا، اور یہ باور کرایا کہ اس کام کی مارکیٹ میں یہی اجرت ہے۔ *** نے اس کی بات پر یقین کر کے اس کو 250 روپے یومیہ دینے پر اتفاق کر لیا۔
*** کے پوچھنے پر *** نے بتایا کہ حج کا مکمل دورانیہ جس میں اسے یہ کام سر انجام دینا ہوگا وہ 50 سے 55 دن کا ہے. اور اس حساب سے اس کو 15000 روپے دیے جائیں۔*** نے سوچا کہ اگر کام کا دورانیہ اتنا بن رہا ہے کہ کل اجرت 15000 روپے بن رہی ہے تو پھر بے شک 15000 روپے طے ہو جائے۔ بہر حال، *** اور *** دونوں متردد رہے کہ اجرت یومیہ کے حساب سے 250 روپے طے کی جائے، یا کہ پورے کام کی یک مشت 15000 طے ہو جائے۔
اب کام تو مکمل ہو گیا ہے، کام کا دورانیہ 38 دن کا تھا، اور 250 روپے یومیہ کے حساب سے 9500 روپے بنتے ہیں، *** کہتا ہے کہ مجھے تو 15000 ہی چاہیئں، اور اس کا دعوٰی ہے کہ ہمارا آخری اتفاق 15000پر ہی ہوا تھا۔
*** کہتا ہے کہ مجھے تو 15000 پر اتفاق کرنا یاد نہیں، یہی یاد ہے کہ آخر تک تردد تھا، اور دوسری بات یہ کہ 15000 پر شروع میں رضامند اسی بنیاد پر ہوا تھا کہ *** نے کہا تھا کہ 50 سے 55 دن کی مدت کا کام ہے، اور 250 کے حساب سے یہ 15000 کے قریب قریب ہی بن رہے تھے، لیکن اب تو دونوں حساب میں 5500 کا فرق آرہا ہے، اور 38 دن پر 15000 کو تقسیم کیا جائے تو ایک دن کی دہاڑی 395 روپے بنتی ہے، جو کہ اس جیسے کام کے لیے بہت زیادہ ہے۔
*** اب 250 کے حساب سے اپنی اجرت لینے پر رضا مند نہیں ہے، 15000 ہی پر مصر ہے۔
*** نے مارکیٹ میں یہی کام کرنے والے دوسرے لوگوں سے پوچھا ہے کہ اس کام کی کیا اجرت ہے، تو انہوں نے 150 روپے دہاڑی بتایا، اور یہ کہا کہ اس سے زیادہ کا یہ کام نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب *** 15000 سے کم لینے سے انکاری ہے تو *** کے ذمے شرعاً کیا واجب ہے؟ بينوا تؤجروا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں *** (جو کہ مستاجر ہے) کے قول کا اعتبار کیا جائے گا اور فی یوم 250 روپے کے حساب سے اجرت دینا شرعاً ان کے ذمہ ہو گا بشرطیکہ وہ اپنے قول پر حلف دیدے۔
فتاویٰ عالمگیری (4/477) میں ہے:
و إن لم يكن لهما بينة و قد تصادقا على الإجارة و اختلفا في الأجرة قبل استيفاء المنفعة تحالفا و ترادّا …. [و في الصفحة التالية] و إن اختلفا في هذه الوجوه بعد ما مضت مدة الإجارة …. فالقول قول المستأجر مع يمينه و لا يتحالفان عندهم………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved