- فتوی نمبر: 19-351
- تاریخ: 22 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > متفرقات حدیث
استفتاء
چنددن پہلے آپ کےدارالافتاء سے چند دینی سوالات کاشرعی جواب دریافت کیا:
1۔میں نے جن اساتذہ کرام سے احادیث کا علم حاصل کیا ان اساتذہ کرام سے اجازت حدیث لینا کیسا ہے؟
آپ نے جواب تحریر فرمایا:
’’ہمارے دیار میں اس علمی اجازت (جو بالعموم حدیث کی ہوتی ہے) اسے شیخ سے ازخود طلب کرنے کا دستور ہے لیکن یہ اجازت وہی لوگ طلب کرتے ہیں جو علمی اشتغال رکھتے ہیں اورمعتدبہ علوم وفنون حاصل کرچکے ہوتے ہیں‘‘
حضرت مفتی صاحب ! اگرمیں نے حدیث شریف کی کتاب حیوۃ المسلمین اورزاد الطالبین اپنے استاذ گرامی حضرت مولانا قاری محمد عارف ؒ(1937-2004)خطیب جامع مسجد کنگ ایڈواڈ میڈیکل کالج لاہو ر سے پڑھی ہیں اور حضرت مفتی سید عبدالقدوس ترمذی صاحب مدظلہ سے احادیث مسلسلات کی تعلیم حاصل کی ہے اوردیگر چندشیوخ حدیث سے چند احادیث پڑھی ہیں۔
کیا ان مشائخ سے انہی احادیث کی اجازت (علم حدیث کو آگے پہنچانے کی اجازت اوراجازت دینے والے کانام بطور سند پیش کرنے کی اجازت)اوربطور تبرک نہیں لے سکتا….آپ کا فرمان ہے کہ مجھے پہلے باقاعدہ دورہ حدیث کرنا پڑے گا تب جاکر میںاس کاہل بنوں گا۔1960،1965سے پہلے تو وفاق المدارس کی ڈگری کا رواج نہ تھا اورمحض مدرسے کی سند اوراستاذ صاحب کے دست مبارک سے لکھے کو کافی سمجھا جاتا تھا۔اگر میں معارف الحدیث ،حیوۃ المسلمین اورزاد الطالبین وغیرہ کسی استاد صاحب سے پڑھوں اورتحریری یا زبانی ان سے انہی احادیث کو آگے تعلیم کرنے اوراپنے استاد کے اقوال بطور سند پیش کرنے کے قابل نہیں ،میں ان سے صحاح ستہ کی اجازت تو نہیں لے رہا نہ کسی مدرسہ میں پڑھانے کی سند مانگ رہاہوں ۔
2۔بندہ نے عرض کیا ہے کہ جب کسی مومن مسلمان نے اپنے شیخ ومرشد کی صحبت اختیار کی ہے شیخ ومرشد نے ان کی دینی ،معاشرتی ،اخلاقی اورروحانی تربیت کرکے انپے دلی تقاضے پراسے خلافت عطافرمادی تو ایسا آدمی کسی دورسے شیخ سے
(جو اس آدمی کواچھی طرح جانتا ہو ،اس کی دینداری سے واقف ہو)کیا ایسا آدمی ان شیخ سے درخواست کرسکتا ہے کہ بطور اعزازی اپنے سلسلہ عالیہ کی اجازت عطافردیں (اس شیخ کی بات نہیں جن سے بیعت ہے ان سے اجازت مانگنا تو جائز نہیں)براہ کرم یہ بات آپ کسی ماہر تصوف بزرگ سے معلوم کرکے دیں۔
3۔میں نے سوال کیا کہ جن شیوخ یا عالم دین سے میں نے اس نیت سے ایک دو احادیث کی تعلیم حاصل کی ہو کیا وہ میرے استاد بن جائیں گے؟
’’جواب:تبرک کے طور پر استاد شمار ہوں گے باقاعدہ استاد نہ ہوں گے‘‘
یہ تبرک استاد اور باقاعدہ استاد کی کیا تفریق ہے؟حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کےبارے میں آتا ہےنا کہ دور دور سفر کرکے صحابہ کرام ؓکےپاس پہنچے اوران سےایک بھی حدیث شریف ہوتی تو وہ پوچھ کراورسمجھ کرواپس تشریف لے آتے تو کیا یہ سفر اورمعاملہ علم دین کانہیں ہے؟اورکیا ایسا صحابی حضرت عبداللہ بن عباس ؓکا استاد نہ ہوا ؟ علی ہذا القیاس
4۔استاد روحانی باپ ہوتا ہے؟
آپ نے فرمایا ’’ہمارے علم میں کوئی ایسی بات نہیں‘‘
براہ کرم یہ حدیث شریف دیکھئے گا آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں تمہارے لیے والد کی طرح ہوں تمہیں سکھاتا ہوں کہ دوران قضائے حاجت نہ قبلے کی طرف رخ کرو نہ ہی اس کی پیٹھ کرو‘‘(سنن ابی داوؤص:1/49)
کیا اس کامطلب یہ نہیں کہ سکھانے والے کادرجہ بھی والد کی طرح ہے؟
5۔کیامفتی صاحب جن سے ہم دینی مسائل پوچھتے ہیں وہ ہمارا استاد ہے یانہیں؟
آپ نے فرمایا’’مفتی سے فتوی پوچھنے کا تعلق استاد شاگردی کا تعلق نہیں سمجھا جاتا‘‘
عجیب بات ہے میں جب مفتی صاحب کے پاس دوزانوں بیٹھ کرپوچھتا ہوں ،میری وراثت کے مسائل کاحل کیا ہے ؟ہمارے جائز ،ناجائز ،حرام وحلال کامسئلہ کیسا ہے؟نماز کے مسائل قربانی کے مسائل روزہ کے مسائل ،حج عمرہ کے مسائل،مفتی صاحب ہمیں دین اسلام کی روشنی میں ان کاشرعی حل سکھاتا اوربتاتا ہے۔تو کیاوہ ابھی تک ہمارا استاد نہ بنا ۔ زکوۃ ،خیرات ،صدقہ ،فطرانہ ،طلاق،نکاح،عقیقہ تمام مسائل مفتی صاحب سے پوچھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فرمایا ’’اگر تمہیں علم نہیں تو ان سے پوچھو جو علم رکھتے ہیں‘‘اگر وہ ہمارے استاد نہیں تو کیا ان حق نہیں کہ ہم ان کا اپنے استاد کی طرح ادب واحترام کریں تو کیا وہ بھی ہمارے ،ہمارے دوستوں اورعام ہمسائیوں کی طرح ہوں گے کہ راستے چلتے ہوئے ان کا ادب نہ کریں ،راستہ نہ دیں ،ان سے آگے چلیں،ان سے عام لوگوں کی طرح چٹاخ چٹاخ سے بات کریں۔
اب میں اپنے کوٹ ادو کے مدرسہ مظاہر علوم میں حضرت مولانا مفتی محمدعبدالجلیل صاحب سے باادب ہوکر جاکر مسائل دینیہ ودنیاوی دریافت کرتا ہوں وہ میرے استاد نہ ہوئے تو کیا میں نے اب تک جھک ماری ہے خط کےذریعہ آپ سے مسائل سیکھتااور پوچھتا رہتاہوں تاکہ اسلام کے مطابق زندگی گزاریں آپ مجھے روح اسلامی کے مطابق مسائل بتاتے ہیں ۔ کیا آپ میرے استاد نہ ہوئے ذراغور کیجئےگا۔
آخر میں آ نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ باقی آپ کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ بجائے اس مشغلے کے آپ اپنے شعبے پر توجہ دیں۔اگر علم کی دنیا میں آنا ہے تو پہلے بنیادی استعدادی علوم میں اطمینان بخش مہارت اوررسوخ حاصل کریں ‘‘
آپ کامطلب ہے کہ پہلے میں باقاعدہ مدرسے میں داخلہ لوں ،آٹھ سال درس نظامی کورس کروں وفاق المدارس العربیہ کی سند حاصل کروں پھر مجھے دین داری آئے گی یا پھر میں کسی شیخ الحدیث سے حدیث شریف کی اجازت لینے اور مصلح وقت سے اجازت ، خلافت حاصل کرنے کا مرتبہ حاصل کرسکوں گا ۔
محترم مفتی صاحب! اگرباقاعدہ مدرسہ میں نہ سہی باقاعدہ کسی شیخ سے صحبت حاصل کرکے بھی بنیادی علم دین آگیا ہے تو ہمارے اکابر نے انہیں اجازت وخلافت سے نہیں نوازاہے؟ اورانہوں نے آگے دین کاکام نہیں کیا ہے ؟منبر پر بیٹھ کرخطبات بھی دئے ہیں دعوت وتبلیغ کے میدان میں آکر وعظ ونصیحت بھی کی ہے خانقاہ میں بیٹھ کرلوگوں کی روحانی بیماریوں کا علاج کیاہے۔انہوں نے بھی تو قرآن کریم اوراحادیث مبارکہ کی روشنی میں یہ سب خدمات سرانجام دی ہیں مگر باقاعدہ وہ عالم دین نہیں مثلا حضرت حکیم الامت ؒ کے خلفاء کرام حضرت ماسٹر محمد شریف ہوشیاپوری ؒ،حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی ؒ،حضرت حاجی محمد یوسف رنگرمی ،حضرت شیخ علی سندیلوی وغیرہم ۔اسی طرح حضرت شیخ الحدیث کے خلفاء حضرت حافظ محمد صغیر احمدؒ ،حضرت صوفی محمداقبال ؒ وغیرہم۔حضرت مولانا عبدالقادررائے پوری ؒ کےخلفاء کرام حضرت سید نفیس الحسینی شاہ ؒ اورتبلیغی جماعت والے حاجی عبد الوھاب صاحبؒ ،حضرت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنی ؒ کے خلیفہ انجئیر عبدالغنی ؒ(بعد میں علم دین پڑھا بڑی عمر میں)
حضرت پیر ذوالفقار احمد نقشبندی صاحب مدظلہ نے بھی اب تک دین اسلام کی تبلیغ ہے (شاید اب انہوں نے باقاعدہ علم دین حاصل کیاہو)اسی طرح حضرت ڈاکٹر حفیظ اللہ ؒ حضرت نواب عشرت علی خان قیصرؒ حضرت پیر انجیئر عبدالمنان صاحب مدظلہ ،حضرت ڈاکٹر خدا محمد پشاوری صاحب مدظلہ
کیا دین سیکھنے اوردین کو پھیلانے قرآن کریم کی تعلیمات احادیث مبارکہ کی اشاعت کےلیے پہلے باقاعدہ درس نظامی کریں پھر ہمارا دینی کام مقبول ہوگا یا اس کےبعد ہم تبلیغ کےقابل ہوں گے ورنہ قابل قبول نہ ہوگا اورکیا میں اپنی ڈکٹری پریکٹس کےساتھ تبلیغ دین نہیں کرسکتا ؟
ذرا -اس حوالے سے اپنی نصیحت اوررائے گرامی کے بارے میں بندہ کو مزید سمجھادیں تاکہ جیتے جی ہم اپنی اصلاح کرسکیں ۔جزکم اللہ خیرا
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
محترم جناب ڈاکٹر عبدالشکور صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
وفقناالله وایاکم لما یحب ویرضٰی
آپ کے سابقہ سوالنامہ کا جوجواب رفقائے دارالافتاء کی طرف سے دیا گیا ہے اس جواب پر آپ کے اس خط کےبعد بھی رفقائے دارالافتاء کو پوری تسلی ہے بلکہ آپ کا یہ خط سابقہ جواب پر مزید اطمیئنان کاباعث ہوا ہے ،لہذا آپ کو ہمارے جواب پر اگر تسلی نہیں تو بجائے اس کے آپ ہمارے ساتھ قیل وقال میں پڑیں اورہمیں قائل کرنے کی کوشش کریں کسی اور تسلی کی جگہ سے اپنےسوالات کا جواب معلوم کرکے اس پر عمل کریں ان شا ء اللہ یہ جانبین کےلیے مفید اوربہتر رہے گا۔اس کےبعد اگر اسی موضوع پر آپ کا سوالنامہ آیا تو ہم اس کاجواب دینے سے معذرت خواہ ہیں
© Copyright 2024, All Rights Reserved