- فتوی نمبر: 18-46
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تشریحات حدیث
استفتاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
"اکیلا سوار شیطان ہے دو سوار بھی شیطان ہیں اور تین سوار قافلہ والے ہیں”
1۔اس حدیث کا مطلب کیا ہے ؟
2۔کیا کسی سوار کو اکیلے سوار ہونا منع ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ حدیث کے علماء نے دو مطلب بیان کئے ہیں:
(1)سفرمیں چونکہ مشقتوں کا پیش آجانا معمول کی بات نہیں ہے جن کا سامنا کرنا ایک شخص کے لئے بلکہ صرف دو افراد ہوں تب بھی دشوار طلب ہوتا ہے اوراگر تین شخص ہوں تو مشقتوں اور پریشانیوں سے نکلنا مشکل نہیں رہتا۔لہذاتن تنہا ایک شخص کا سفرکیلئےنکلنا یا دو افراد کا نکلنا تکلیفوں اور مشقتوں سے بچنے کے بجائے اپنے آپ کو مشقتوں میں ڈالنےاوران پر خوش ہونے کی علامت ہے جو کہ شیطان کا وصف ہے۔
(2)یہ حکم شروع اسلام میں تھا جب ہر طرف کفار کا غلبہ تھا اور ایک دو آدمیوں کے سفر پر نکلنے میں خطرہ رہتا تھا ، اس لئے جو شخص اکیلا ہویا دو افرادہوں تووہ گویااپنے آپ کویااپنے ایمان کو خود خطرہ میں ڈال رہے ہیں اور شیطان کو خوش کرنے کا کام کررہے ہیں لیکن جب مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا تو یہ حکم منسوخ ہوگیا ۔بہرحال جہاں مسلمانوں کا غلبہ ہواور سفر میں بہت زیادہ مشقت کا اندیشہ نہ ہو تو اکیلے سفر کرنا منع نہیں۔
بذل المجهود في حل سنن أبي داود (9/ 192)
وكتب مولانا محمد يحيى المرحوم من تقرير شيخه: قوله: "الراكب شيطان” .. إلخ، قيل: كان ذلك في أول الأمر لغلبة الكفار، ثم رخص لما شاع الإسلام في السفر وحده، وقيل: بل هو باق، وإطلاق الشيطان على هذا كناية عن سروره بتكاليفه ومشاقه، وعلى الأول فكان إطلاقه عليه لما أنه معرض له ومظنة لسلب إيمانه، انتهى.
قلت: ويؤيد الأول قوله في الحديث: "حتى تسير الظعينة لا تخاف إلَّا الله تعالى”.
© Copyright 2024, All Rights Reserved