- فتوی نمبر: 33-04
- تاریخ: 22 مارچ 2025
- عنوانات: حدیثی فتاوی جات > تحقیقات حدیث
استفتاء
امام قرطبی بعض تابعی حضرات کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :
من كثرت ذنوبه فعليه بسقي الماء وقد غفر الله ذنوب الذي سقي الكلب فكيف بمن سقي رجلا مؤمنا موحدا .
جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ لوگوں کو پانی پلائے ۔ تحقیق اللہ تعالی نے اس شخص کو معاف کر دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا ! تو اللہ اس شخص کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو ایک موحد مومن کو پانی پلائے (تفسیر قرطبی : 215/7)
1۔کیا اس مضمون کی کوئی حدیث درست ہے؟
2۔اور کیا ایسی احادیث کے پیشِ نظر پانی کی سبیل لگانا صحیح نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۔اس مضمون کی حدیث صحیح بخاری (2/1127) میں موجود ہے کہ ایک شخص نے پیاسے کتے کو پانی پلایا اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی۔
2۔ اس طرح کی احادیث کے پیش نظر اگر عام دنوں میں کوئی پانی کی سبیل لگائے تو یہ ٹھیک ہے لیکن اگر وہ محرم الحرام میں اور بالخصوص 10محرم کو پانی کی سبیل لگاتا ہے تو یہ صحیح نہیں کیونکہ اس میں اہل تشیع کے ساتھ مشابہت ہے۔
1۔صحیح بخاری (2/1127) میں ہے:
عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «بينا رجل يمشي، فاشتد عليه العطش، فنزل بئرا فشرب منها، ثم خرج فإذا هو بكلب يلهث، يأكل الثرى من العطش، فقال: لقد بلغ هذا مثل الذي بلغ بي، فملأ خفه ثم أمسكه بفيه، ثم رقي فسقى الكلب، فشكر الله له فغفر له، قالوا: يا رسول الله، وإن لنا في البهائم أجرا؟ قال: في كل كبد رطبة أجر»
2۔فتاویٰ رشیدیہ (1/205) میں ہے:
سوال:محرم میں عشرہ وغیرہ کے روز شہادت کا بیان کرنا مع اشعار براویت صحیحہ یا بعض ضعیفہ بھی ونیز سبیل لگانا اور چندہ دینا اور شربت بچوں کا پلانا درست ہے یا نہیں؟
جواب: محرم میں ذکر شہادت حسین ؑ کرنا اگرچہ بروایت صحیحہ ہو یا سبیل لگانا شربت پلانا یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نادرست اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہے۔
خیر الفتاویٰ (1/569) میں ہے:
جواب: پانی پلانا کار ثواب اور نیکی کا کام ہے لیکن صرف عشرہ محرم کی تخصیص اور باقی دنوں میں اس عمل کو ترک کرنا ترجیح بلا مرجح اور روافض کا تشبہ ہے اس لیے یہ عمل بدعت اور قابل رد ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved