• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

انبیاء علیھم السلام کی قبرکی زندگی

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

كيا ہم انبیاءکرام علیہم السلام کےقبورمیں جسمانی زندگی کےقائل ہیں؟اگر انبیاء  کے اجسام محفوظ رہتے ہیں تو درج ذیل حدیث کا کیا مفہوم ہے؟

 عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : أَتَى النَّبِيُّ  ‌صلی ‌الله‌عليه ‌وآله ‌وسلم ‌أَعْرَابِيا فَأَكْرَمه ، فَقَالَ لَه: « ائْتِنَا »  فَأَتَاه ، فَقَالَ رَسُولُ الله  ‌صلی ‌الله ‌عليه ‌وآله ‌وسلم ‌: (وَفِي رِوَايَةٍ: نَزَلَ رُسولُ اللهِ  ‌صلی ‌الله ‌عليه ‌وآله ‌وسلم ‌بِأَعْرَابِي فَأَكْرَمه فَقَال لَه رَسُولُ اللهِ  ‌صلی ‌الله عليه ‌وآله ‌وسلم ‌: « تَعهَدْنَا ائْتِنَا » فَأَتَاهُ الأَعْرَابِي فَقَالَ لَه رَسُول اللهِ  ‌صلی ‌الله ‌عليه ‌وآله ‌وسلم ‌:) « سَلْ حَاجَتَك » ، فَقَالَ : نَاقَةٌ بِرَحْلِهَا ، وَأَعْنَزًا يَحْلِبُهَا أَهْلِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ‌صلی ‌الله ‌عليه ‌وآله ‌وسلم ‌: « أَعَجَزْتُمْ أَنْ تَكُونُوا مِثْلَ عَجُوْزِ بَنِي إِسْرَائِيْل ؟ » ، (فَقَالَ أَصْحَابه : يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا عَجُوز بَنِي إِسْرائِيْل؟) قَالَ : « إِنَّ مُوسَى لمَّا سَارَ بِبَنِي إِسْرائِيْل مِنْ مِصْرَ ضَلُّوا الطَّرِيْق؟ ، فَقَالَ : مَا هَذاَ ؟ فَقَالَ عُلَمَاؤُهم : (نَحْنُ نُحَدِّثُكَ:) إِنَّ يُوْسُفَ لماَ حَضَرَه المَوْت أَخذَ عَلَيْنَا مَوْثِقاً مِّنَ اللهِ أَنْ لَّا نَخْرُج مِنْ مِّصْر حَتَّى نَنْقُل عِظَامَه مَعَناَ ، قَالَ: فَمَنْ يَّعْلَم مَوْضِع قَبْرِه ؟ (قَالُوا: مَا نَدْرِي أَيْن قَبْر يُوسُف إِلَّا) عَجُوزٌ مِّنْ بَنِي إِسْرائِيْل ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا فَأَتَتْهُ ، فَقَالَ : دُلُّوْنِي عَلىَ قَبْرِ يُوْسف ، قَالَتْ : (لَا وَاللهِ لاَ أَفْعَل) حَتَّى تُعْطِيَنِي حُكْمِي، قَالَ : وَمَا حُكْمُك ؟ قَالَتْ : أَكُوْنُ مَعَك فِي الْجَنَّة ، فَكَرِه أَنْ يُعْطِيَهَا ذَلِك ، فَأَوْحَى اللهُ إِلَيْه : أَنْ أَعْطهَا حُكْمهاَ ، فَانْطَلَقَتْ بِهِمْ إِلَى بُحَيْرَة : مَوْضِع مُسْتَنْقع مَاءٍ ، فَقَالَتْ : أَنْضِبُوا هَذَا الماَء ، فَأَنْضَبوا ، قَالَتْ : اِحْفِرُوا وَاسْتَخْرِجُوا عِظَامَ يُوْسُف ، فَلَمَّا أَقَلُّوهاَ إِلَى الأَرْضِ إِذَا الطَّرِيْق مِثْل ضَوْءِ النَّهَار ».

یہ حدیث مسند ابی یعلیٰ ،مستدرک للحاکم اورصحیح ابن حبان میں موجود ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اہلسنت ولجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے کہ آپﷺ اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،یہ تو اجمال ہے۔اور اس کی تفصیل یہ ہےکہ روح کا مرنے کے بعد جسم سے تعلق مختلف ہوتا ہے ۔عام اموات میں جتنا تعلق ہوتا ہے شہداء میں یہ تعلق اس سے زیادہ قوی ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جسم بہت مدت تک باقی رہتے ہیں  اورانبیاء علیہم السلام میں تو یہ تعلق شہداء  سے بھی زیادہ ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان کے اجسام مبارکہ محفوظ رہتے ہیں اور ان سے بعض اعمال مثلاً نماز پڑھنا صادر ہوتے ہیں ۔اور چونکہ ان افعال و احوال کا تعلق عالم برزخ سے ہے جو کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہےاس لیے مادی اور حسی دنیا میں ہمیں دکھائی دینا ضروری نہیں ہے۔

چنانچہ حدیث پاک میں آتا   ہے:

قال رَسُول اللَّهِ ﷺ: (إن من أفضل أيامكم يوم الجمعة فيه خلق آدم و فيه النفخة و فيه الصعقة فأكثروا عليّ من الصلاة فيه فإن صلاتكم معروضة علي)قالوا: يا رَسُول اللَّهِ كيف تعرض صلاتنا عليك وقد أَرِمْت (اي يقولون قد  بَلِيْتَ ) قال: (إن اللَّه حرم على الأرض ان تاكل  أجساد الأنبياء.نسائي ج1،ص203

ترجمہ :نبی کریم ﷺ نے فرمایا بے شک تمہارے دنوں میں سے افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور اسی دن  ان کی وفات ہوئی ، اسی دن نفخہ اولیٰ ہوگا اور اسی دن نفخہ ثانیہ ہوگا اس لیے تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جا سکے گا جبکہ آپ کا جسم مبارک ریزہ ریزہ ہوچکا ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بے شک حق تعالیٰ نے زمین پر اس بات کو حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کے جسموں کو کھائے۔

اور رہی وہ احادیث کہ جن میں حضرت یوسف علیہ السلام کی قبر مبارک سے ہڈیاں نکالنے کا ذکر کیا گیا ہے تو جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے کہ ہمیں یہ حیات برزخی محسوس نہیں ہوسکتی تو انہوں نے  حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم مبارک کو ہڈیاں  اس لیے کہا تھا کہ جیسے ہم ہڈیوں میں حیات محسوس نہیں کر سکتے اسی طرح انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم مبارک میں بھی حیات کومحسوس نہیں کیا۔ علاوہ ازیں ہڈیاں جو کہ جزء ہیں جسم کا ان کو بول کر پورا جسم مراد لیا جاتا ہے۔ چناچہ ایک حدیث میں ہے :

ان النبی لما بدن قال له التميم الداري الا اتخذ لك منبرا يا رسول الله يجمع او قال يحمل عظامك؟ قال بلي ،فاتخذ له منبرا مرقاتين

ترجمہ:نبی کریمﷺ جب عمررسیدہ ہو گئے اور ان کا جسم بھاری ہو گیا ،حضرت تمیم داری ؓ نے آپ

سے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے منبر نہ بنا لوں جس پر آپ تشریف رکھا کریں ؟آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں !تو انہوں نے آپ ﷺ کے بیٹھنے کے لیے منبر بنادیا جس کی دو درجے تھے۔

اس حدیث میں عظام کے لفظ سے مراد پورا جسم ہے اور سوال میں مذکور حدیث میں بھی عظام سے جسم ہی مراد ہے ۔چنانچہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

والجواب ان العظام ذكرت والمراد منها جميع البدن من باب اطلاق الجزء علي الكل نقل هذا الجواب عن شيخنا و تمم بان الجسد لما لم يكن فيه الروح عبرت عنه بالعظام اللتي من شانها عدم الاحساس او يكون هذا باعتبار ظن تلك العجوز انه لا فرق بين ابدان  الانبياء وسائر الناس في البلاد والله  اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved